سوال:
مفتی صاحب! کیا عورتوں میں بھی مفتیہ ہوسکتی ہیں؟ کیا وہ فتوی دے سکتی ہیں؟ کوئی ایسی تعلیم جس سے یہ علم حاصل کرسکیں؟
جواب: اگرچہ مفتی ہونے کے لیے مرد ہونا شرط نہیں ہے، نیز اسلامی تاریخ بعض خواتین عظیم فقیہہ گزری ہیں، جن میں ام المؤمنین حضرت عائشہؓ سرِ فہرست ہیں، لیکن یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ فتویٰ دینا شرعی اور دینی ذمہ داری ہے، اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے مختلف شرائط و صفات کے ساتھ ساتھ یکسوئی کے ساتھ تحقیق و تدقیق، جدوجہد، قرآن و حدیث اور فقہ میں دسترس ضروری ہے، اور یہ بنیادی طور پر مرد کا کام ہے، جس کا اہتمام کرنا خواتین کی گھریلو مصروفیات اور مختصر نصاب کی وجہ سے عام طور پر بہت مشکل ہے۔
تاہم اگر کسی عورت میں بنیادی شرائط موجود ہوں اور وہ خواتین سے متعلق مسائل کو اچھی طرح پڑھ اور سمجھ کر کبھی دیگر خواتین کو مسئلہ بتادے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (359/5، ط: دار الفكر)
ولا خلاف في اشتراط إسلامه وعقله، وشرط بعضهم تيقظه لا حريته وذكورته ونطقه فيصح إفتاء الأخرس لا قضاؤه.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی