سوال:
میرے سالے (جس کی پہلے سےایک بیوی اور چار بچے ہیں، اس) نے ایک ہفتہ قبل ایک مطلقہ عورت سے دوسری شادی کر لی، کچھ دن بعد اس نے اپنی پہلی بیوی کو بتایا کہ میں دوسرا نکاح کرچکا ہوں، جس پر وہ بہت غصہ کرنے لگی اور اس گھر کے افراد کے ذریعے بہت تکلیف دہ باتیں پتا چلیں۔ کل میں اپنی بیوی کے ساتھ اس سالے کے گھر گیا تو وہ عورت میری بیوی پر بھی غصہ ہونے لگی کہ تمہارے بھائی نے میرے ساتھ اتنا بڑا ظلم کیا ہے، جس پر میری بیوی نے کہا کہ تھوڑا صبر کرو اور قرآن پاک میں جواللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، اس کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ بس اتنا سنتے ہی میرے سامنے اس عورت نے یہ جواب دیا "مجھے کچھ نہیں سمجھنا قرآن سے" بس میں یہ جانتی ہوں کہ یہ قانون ہی اللہ تعالیٰ نے غلط بنایا ہے (معاذاللہ) اور قرآن میی بھی یہ غلط قانون ہے" یہی بات اس عورت نے دو مرتبہ دہرائی اور کہتی ہے کہ مجھے اس پر کچھ نہیں سمجھنا۔
اس بات کے ہوتے وقت میں خود وہاں موجود تھا اور میری بیوی اور ایک سالی بھی تھی، البتہ میرا سالا (جس کی یہ پہلی بیوی ہے) اس وقت وہاں موجود نہیں تھا۔
معلوم یہ کرنا ہے کہ یہ بات جو اس عورت نے کہی ہے، کیا اس بات کرنے سے اس کا ایمان اور نکاح باقی رہا ہے اور اگر نہیں رہا ہے اور وہ اب بھی میاں بیوی کی حیثیت سے ہی ساتھ رہ رہے ہوں تو کیا ان سے تعلقات رکھنا جائز ہوگا؟ نیز اگر عورت کی بدکلامی کیوجہ سے ایمان و نکاح ختم ہوچکا ہے تو کیا دوبارہ ان کا آپس میں نکاح ہوسکتا ہے؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں مذکورہ عورت کی جذباتی کیفیت میں آپ کی جانب سے اس طرح قرآن پاک کی آیت پیش نہیں کرنی چاہیے تھی، خاص طور پر ایسے وقت میں کہ جب اس کی جانب سے جذبات سے مغلوب ہوکر اس طرح کی غلط بات کا اندیشہ موجود تھا۔
جہاں تک سوال میں ذکر کردہ الفاظ "مجھے کچھ نہیں سمجھنا قرآن سے، بس میں یہ جانتی ہوں کہ یہ قانون ہی اللہ تعالیٰ نے غلط بنایا ہے (معاذاللہ) اور قرآن میں بھی یہ غلط قانون ہے" كا تعلق ہے تو ان الفاظ کا حکم یہ ہے کہ یہ قرآن شریف کی سخت بے حرمتی پر مشتمل ہونے کی وجہ سے کفریہ الفاظ ہیں، اس لیے مذکورہ عورت پر ایمان کی تجدید کرنا ضروری ہے، لہٰذا اس کو آخرت کی فکر دِلا کر توبہ و استغفار اور تجدیدِ ایمان کی تلقین کی جائے۔
تاہم اس کا نکاح مفتیٰ بہ قول کے مطابق اپنے شوہر سے ختم نہیں ہوا، البتہ جب تک وہ اپنے اس کفریہ بات سے توبہ کرکے تجدید نکاح نہ کرلے، اس وقت تک شوہر کے لیے اس سے ازدواجی تعلقات (ہمبستری یا بوس و کنار کرنا) جائزنہیں ہوگا۔ نیز اگر احتیاطاً تجدید نکاح کرلیا جائے تو یہ بہتر ہے، لیکن اگر تجدیدِ نکاح نہ بھی ہو، تب بھی نکاح بدستور باقی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهندية: (267/2)
في خزانة الفقه لو قيل لم لا تقرأ القرآن فقال: بيزارشدم ازقرآن يكفر.
فتح القدير لابن الهمام: (428/3، 429، ط: دار الفكر)
قوله وإذا ارتد أحد الزوجين عن الإسلام وقعت الفرقة في الحال بغير طلاق... هذا جواب ظاهر المذهب وبعض مشايخ بلخ وسمرقند أفتوا في ردتها بعدم الفرقة حسما لاحتيالها على الخلاص بأكبر الكبائر وعامة مشايخ بخارى أفتوا بالفرقة وجبرها على الإسلام وعلى النكاح مع زوجها الأول لأن الحسم بذلك يحصل ولكل قاض أن يجدد النكاح بينهما بمهر يسير ولو بدينار رضيت أم لا وتعزر خمسة وسبعين ولا تسترق المعتدة ما دامت في دار الإسلام في ظاهر الرواية في رواية النوادر عن أبي حنيفة تسترق.
الدر المختار مع رد المحتار: (194/3، ط: دار الفكر)
وأفتى مشايخ بلخ بعدم الفرقة بردتها زجرا وتيسيرا لا سيما التي تقع في المكفر ثم تنكر، قال في النهر: والإفتاء بهذا أولى من الإفتاء بما في النوادر.
(قوله قال في النهر إلخ) عبارته: ولا يخفى أن الإفتاء بما اختاره بعض أئمة بلخ أولى من الإفتاء بما في النوادر، ولقد شاهدنا من المشاق في تجديدها فضلا عن جبره بالضرب ونحوه ما لا يعد ولا يحد. وقد كان بعض مشايخنا من علماء العجم ابتلي بامرأة تقع فيما يوجب الكفر كثيرا ثم تنكر وعن التجديد تأبى، ومن القواعد: المشقة تجلب التيسير والله الميسر لكل عسير. اه.
قلت: المشقة في التجديد لا تقتضي أن يكون قول أئمة بلخ أولى مما في النوادر، بل أولى مما مر أن عليه الفتوى، وهو قول البخاريين لأن ما في النوادر هو ما يأتي من أنها بالردة تسترق تأمل.
الحيلة الناجزة: (ص: 119، 120، ط: دار الاشاعت)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی