سوال:
میں ڈراپ شپنگ کاروبار شروع کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہوں جہاں ہم گاہکوں اور سپلائرز کے درمیان ایجنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ہم خود مصنوعات کے مالک نہیں ہیں، اس کے بجائے ہم سپلائر سے گاہک کو سامان کی فروخت اور ترسیل کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ ہم ہوم پیج پر یا اپنی شرائط و ضوابط میں ایک واضح تردید شامل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ ہم پروڈکٹ کو ڈراپ شپ کریں گے اور ہم اس کے مالک نہیں ہیں۔ سپلائر براہ راست کسٹمر کو مصنوعات کی تکمیل اور ترسیل کو سنبھالے گا۔ ہماری ذمہ داریاں صرف مارکیٹنگ، سیلز اور کسٹمر سروس تک محدود ہوں گی۔
ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ترسیل کے اوقات اور مصنوعات کی تفصیلات شفاف طریقے سے صارفین تک پہنچائی جائیں۔
اس ضمن میں سوال یہ ہے کہ کیا یہ ڈراپ شپنگ ماڈل اسلام میں جائز ہے، کیونکہ ہم اپنے کردار کو واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں اور فزیکل انوینٹری نہیں رکھتے؟ نیز کیا اس کاروباری ماڈل میں شریعت کے مطابق ہونے کو یقینی بنانے کے لیے کوئی خاص اسلامی اصول یا شرائط موجود ہیں؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں چونکہ آپ کی حیثیت سپلائر اور گاہک کے درمیان کمیشن ایجنٹ کی ہے کہ آپ اپنے سپلائر کی چیز کی تشہیر کرکے پھر بکوا دیتے ہیں، اور اس عمل کے عوض سپلائر سے طے شدہ اجرت/کمیشن لیتے ہیں تو ایسا کاروبار شرعاً درست اور جائز ہے، بشرطیکہ بیچی جانے والی چیز حلال ہو، ایسی صورت میں بیچی جانے والی چیز کا آپ کی ملکیت (ownership) اور قبضہ (possession) میں آنا شرعاً ضروری نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (63/6، ط: دار الفکر)
و في الدلال و السمسار يجب أجر المثل، و ما تواضعوا عليه....و في الحاوي: "سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: "أرجو أنه لا بأس به و إن كان في الأصل فاسدا؛ لكثرة التعامل، و كثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه.
الدر المختار: (کتاب الإجارۃ، 5/6، ط: دار الفکر)
وشرطها : کون الأجرۃ والمنفعة معلومتین، لأن جہالتہما تفضي إلی المنازعة
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی