سوال:
شادی میں اگر ملازمہ لڑکی کے گھر والوں نے فرنیچر بنا کر دینا ہے لڑکی کو، تب بھی زکوٰۃ دی جا سکتی ہے فرنیچر خریدنے کے لیے؟
جواب: واضح رہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی صحیح ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ مستحق کو مالک بنا کر رقم یا چیز حوالہ کی جائے، لہذا اگر لڑکی مستحقِ زکوۃ ہے تو اسے زکوۃ کی رقم یا جہیز وغیرہ مالک بنا کر دے دیا جائے یا اگر اس کے والدین زکوۃ کے مستحق ہیں تو انہیں زکوۃ کی رقم مالک بنا کر دے دی جائے، پھر وہ اپنی بیٹی کی شادی کے اخراجات پورا کرلیں یا کسی اور مصرف میں خرچ کر لیں۔
شادی کے وہ اخراجات جن میں کسی مستحق کو مالک نہ بنایا جائے، (مثلاً: ہال وغیرہ کی بکنگ یا کھانے کے اخراجات کی ادائیگی) ان مدات میں از خود رقم صرف کرنے سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی، بلکہ لڑکی یا اس کی طرف سے بنائے گے وکیل کو قبضہ دینا ضروری ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیۃ: (170/1، ط: دار الفکر)
(الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها)
أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله - تعالى - هذا في الشرع كذا في التبيين
الدر المختار: (244/2، ط: دار الفکر)
ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر
بدائع الصنائع: (43/2، ط: دار الکتب العلمیة)
وأما الذي يرجع إلى المؤدى إليه فأنواع: منها أن يكون فقيرا فلا يجوز صرف الزكاة إلى الغني إلا أن يكون عاملا عليها لقوله تعالى {إنما الصدقات للفقراء والمساكين والعاملين عليها والمؤلفة قلوبهم وفي الرقاب والغارمين وفي سبيل الله وابن السبيل} [التوبة: ٦٠] جعل الله تعالى الصدقات للأصناف المذكورين بحرف اللام وأنه للاختصاص فيقتضي اختصاصهم باستحقاقها
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی