سوال:
زید نے عمر کو ایک گاڈی بیچی جس کی نقد قیمت 9 لاکھ ہے، لیکن زید نے عمر کو ایک سال کے ٹائم پر مذکورہ گاڑی 12 لاکھ میں بیچی جس میں 5 لاکھ نقد اور باقی ایک سال بعد دینے ہیں۔ یہ معاملہ کرنے کے بیس دن بعد عمر زید کے پاس آکر کہتا ہے کہ میں ساڑھے تین لاکھ ابھی دیتا ہوں اور باقی بھی سال سے پہلے پہلے دے دوں گا، لیکن آپ مجھے مذکورہ گاڑی کے ریٹ میں کمی کریں۔ پوچھنا یہ ہے کہ عمر کے لئے یہ مطالبہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ نیز اگر زید راضی ہو جائے تو کیا عمر کے لئے وقت میں مقابلے میں کم کرائی ہوئی رقم لینے میں کوئی شرعی قباحت ہوگی یا نہیں؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں جو قیمت شروع میں طے کی گئی تھی، عمر اتنی ہی رقم دینے کا پابند ہوگا، مقررہ وقت سے پہلے قیمت کی ادائیگی کی صورت میں بھی وہی رقم پوری کرکے دی جائے گی جو شروع میں طے کی گئی تھی، جلد ادائیگی کی وجہ سے قیمت میں کمی کا مطالبہ کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، اس سے اجتناب لازم ہے۔
تاہم اگر شروع میں معاہدہ کرتے وقت جلد ادائیگی کی وجہ سے قیمت میں کمی کی شرط نہ لگائی گئی ہو، نیز مارکیٹ میں اس کا عرف اور رواج بھی نہ ہو، ایسی صورت میں اگر بیچنے والا اپنی رضامندی سے کچھ قیمت کم وصول کرلے تو اس کی گنجائش ہے، لیکن خریدار کے لیے کا اس کا مطالبہ کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
شرح المجلة: (رقم المادۃ: 246)
البیع مع تأجیل الثمن وتقسیطه صحیح … یلزم أن تکون المدۃ معلومة في البیع بالتأجیل والتقسیط الخ
فقه البیوع: (545/1، مکتبة دار العلوم کراتشي)
ومما يتعامل به بعض التجار في الديون المؤجله انهم يسقطون حصة من الدين بشرط ان يعجل المديون باقيه قبل حلول الاجل مثل ان يكون لزيد على عمر الف فيقول زید "عجل لی تسعمائة وانا اضع عنك مائة" وان هذه المعامله معروفة في الفقه باسم "ضع وتعجل" وهذا التعجیل ان كان مشروطا بالوضع من الدين فان المذاهب الاربعه متفقة على عدم جوازه
کذا فی فتاوی جامعه بنوری تاؤن: رقم الفتوی: 144508100595
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی