عنوان: پھل دار درخت کے گرے ہوئے پھل کا حکم (19195-No)

سوال: مفتی صاحب! میں نے آپ سے پوچھنا یہ تھا کہ ایک شخص کے گھر میں اگرکوئی پھل فروٹ والا درخت لگا ہو اور وہ فروٹ باہر روڈ کے اوپر گر جائے تو کیا اس فروٹ کو اٹھا کر کوئی بھی شخص کھا سکتا ہے؟ کیونکہ باہر روڈ کے اوپر گاڑیاں بھی گزر رہی ہوتی ہیں اور لوگ بھی گزرتے ہیں اور اس فروٹ کو پاؤں کے نیچے دے جاتے ہیں تو کیا اس فروٹ کو اٹھا کے کھا لینا چاہیے یا اٹھا کر سائیڈ پر کر دینا چاہیے؟

جواب: واضح رہے کہ کسی بھی درخت پر لگنے والا پھل درخت کے مالک کی ملکیت ہوتا ہے، مالک کی اجازت کے بغیر اس کا استعمال جائز نہیں ہوتا اور پھل درخت سے زمین پر گرنے کی وجہ سے مالک کی ملکیت سے نہیں نکلتا ہے، بلکہ بدستور مالک ہی کی ملکیت میں رہتا ہے، اس لیے گرے ہوئے پھل کے بارے میں بھی جب تک مالک کی طرف سے اجازت نہ ہو، اس کا کھانا جائز نہیں ہوگا، پوچھی گئی صورت میں اگر مالک کی طرف سے صراحتاً یا دلالتاً پھل استعمال کرنے کی اجازت ہو تو آپ اس پھل کو استعمال کرسکتے ہیں، لیکن اگر مالک کی طرف سے اس کی صراحتاً یا دلالتاً اجازت نہیں دی گئی ہو تو پھر اس پھل کے کھانے سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔ (دلالتاً اجازت کا مطلب یہ ہے کہ مالک لوگوں کو پھل اٹھاتے اور کھاتے ہوئے دیکھ لے، لیکن منع نہ کرے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الھندیة: (290/2، ط: سعید)
إذَا مَرَّ فِي أَيَّامِ الصَّيْفِ بِثِمَارٍ سَاقِطَةٍ تَحْتَ الْأَشْجَارِ فَهَذِهِ الْمَسْأَلَةُ عَلَى وُجُوهٍ إنْ كَانَ ذَلِكَ فِي الْأَمْصَارِ لَا يَسَعُهُ التَّنَاوُلُ مِنْهَا إلَّا أَنْ يَعْلَمَ أَنَّ صَاحِبَهَا قَدْ أَبَاحَ ذَلِكَ إمَّا نَصًّا أَوْ دَلَالَةً بِالْعَادَةِ، وَإِنْ كَانَ فِي الْحَائِطِ وَالثِّمَارِ مِمَّا يَبْقَى كَالْجَوْزِ وَنَحْوِهِ لَا يَسَعُهُ أَنْ يَأْخُذَهُ مَا لَمْ يَعْلَمْ أَنَّ صَاحِبَهَا قَدْ أَبَاحَ ذَلِكَ، وَمِنْهُمْ مَنْ قَالَ: لَا بَأْسَ بِهِ مَا لَمْ يُعْلَمْ النَّهْيُ إمَّا صَرِيحًا أَوْ دَلَالَةً، وَهُوَ الْمُخْتَارُ وَإِنْ كَانَ ذَلِكَ فِي الرَّسَاتِيقِ الَّتِي يُقَالُ بِالْفَارِسِيَّةِ بيرادسته، وَكَانَ ذَلِكَ مِنْ الثِّمَارِ الَّتِي تَبْقَى لَا يَسَعُهُ الْأَخْذُ إذَا عَلِمَ الْإِذْنَ وَإِنْ كَانَ ذَلِكَ مِنْ الثِّمَارِ الَّتِي لَا تَبْقَى يَسَعُهُ الْأَخْذُ بِلَا خِلَافٍ مَا لَمْ يَعْلَمْ النَّهْيَ، وَهَذَا الَّذِي ذَكَرْنَا كُلُّهُ إذَا كَانَتْ الثِّمَارُ سَاقِطَةً تَحْتَ الْأَشْجَارِ، فَأَمَّا إذَا كَانَتْ عَلَى الْأَشْجَارِ فَالْأَفْضَلُ أَنْ لَا يَأْخُذَهُ فِي مَوْضِعٍ مَا إلَّا بِإِذْنِ الْمَالِكِ إلَّا إذَا كَانَ مَوْضِعًا كَثِيرَ الثِّمَارِ يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يَشُقُّ عَلَيْهِمْ ذَلِكَ فَيَسَعُهُ الْأَكْلُ وَلَا يَسَعُهُ الْحَمْلُ، كَذَا فِي الْمُحِيطِ۔

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 413 Aug 20, 2024
phal dar darakht k giray huwe phal ka hokom hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Prohibited & Lawful Things

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.