سوال:
کیا عورت ایسی کمپنی میں کام کرسکتی ہے جس میں عورت کو کسٹمر کو فون کر کے بیلنس ریچارج کرنے کا کہنا ہو؟ ایک کسٹمر سے چالیس سیکنڈ تک بات کرنی ہوتی ہے اور اگر کوئی عورت کام کررہی ہو تو اس کی آمدنی حلال شمار ہوگی یا حرام؟
جواب: واضح رہے کہ شریعت مطہرہ نے عورت پر کسبِ معاش کی ذمہ داری نہیں ڈالی ہے، بلکہ مردوں کو کسبِ معاش کا مکلف بنایا ہے، لہذا شادی تک لڑکیوں کا نان ونفقہ والد کے ذمے اور شادی کے بعد شوہر پر واجب ہے، اس لیے کسی عورت کو اگر معاشی تنگی کا سامنا نہیں ہو تو محض معیارِ زندگی بلند کرنے کے لیے گھر سے باہر نکل کر ملازمت کے لیے پیش قدمی کرنا شریعت کی نظر میں پسندیدہ عمل نہیں ہے، لیکن اگر عورت کو معاشی تنگی کا سامنا ہو یا کسی ضرورت کی وجہ سے ملازمت کرنی پڑ جائے تو ایسے موقع پر درج ذیل شرائط کے ساتھ ملازمت کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی گنجائش ہوگی۔
1) ملازمت کا کام بذات خود جائز ہو، ایسا کام نہ ہو جو شرعاً ناجائز یا گناہ ہو۔
2) شرعی پردہ کی مکمل رعایت ہو۔
3) لباس پرکشش اور ایسا نہ ہو، جس سے جسم کا کوئی حصہ نمایاں ہوتا ہو۔
4) عورت بناؤ سنگار اور زیب وزینت کے ساتھ، نیز خوشبو لگا کرنہ نکلے۔
5) ملازمت کرنے کی وجہ سے گھریلو امور میں لاپروائی نہ ہو، جس سے شوہر اور بچوں کے حقوق ضائع ہوں۔
جس ملازمت میں اوپر ذکر کردہ تمام شرائط کی رعایت کی جائے، ایسی جگہ ملازمت کرنے کی گنجائش ہے، واضح رہے کہ صحیح قول کے مطابق عورت کی آواز ستر میں داخل نہیں ہے، لیکن عورت کا اپنی آواز میں بتکلف نرمی اور لطافت پیدا کرکے مردوں سے بات کرنا جس میں فتنہ کا اندیشہ ہو، ممنوع ہے، اس سے اجتنباب کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الآیة: 34)
الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلٰی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ ... الخ
و قوله تعالی: (الأحزاب، الآیة: 33)
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى ... الخ
و قوله تعالی: (الأحزاب، الآیة: 53)
وإذا سألتموهن متاعاً فاسألوهن من وراء حجاب ذلكم أطهر لقلوبكم وقلوبهن ... الخ
المحیط البرھانی: (236/5، ط: ادارۃ القرآن)
وعسی لا تجد من یسوی امرھا، فتحتاج الی الخروج لتسویة امر معیشتھا غیر ان الامر المعیشة عادۃ تسوی بالنھار دون اللیالی، فابیح لھا الخروج بالنھا دون اللیالی
الدر المختار مع رد المحتار: (569/5، ط: سعید)
( قوله :واذا بلغ الذکور حد الکسب)ای قبل بلوغھم مبلغ الرجال اذ لیس له اجبارھم علیه بعدہ (قوله : بخلاف الاناث) فلیس له ان یؤ جرھن فی عمل، او خدمة ،تتارخانیة، لان المستاجر یخلو بھا وذ لك سیئ فی الشرع ذخیرة ،ومفادہ انه یدفعها الی امراۃ تعلمها حرفة کتطریز وخیاطة اذ لا محذور فیه
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی