سوال:
ایک آدمی کی زمین کسی نے زبردستی اس سے لی ہے، جس کی زمین ہے اس نے دوسرے لوگوں کو کہا ہے کہ جو میری یہ زمین اس شخص سے لے تو میں اس زمین کے آمدن میں سے تیسرا حصہ بیج کر اس کو دوں گا، اب پانچ آدمیوں نے مل کر اس غاصب سے زمین لی اور مالک زمین نے ان پانچ بندوں کو پچاس لاکھ روپے دیے ہیں۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا یہ رقم ان پانچ آدمیوں کے لیے لینا جائز ہے؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر واقعی اس شخص کی زمین پر زبردستی کسی نے قبضہ کیا تھا تو اس ناجائز قبضہ کو چھڑانے کے سلسلے میں کسی کو طے شدہ اجرت دے کر معاملہ کرنا شرعاً درست ہے، لہذا غاصب سے زمین کا قبضہ چھڑا کر مالک کو دینے کے عوض ملنے والی طے شدہ اجرت شرعاً جائز اور حلال ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
المعاییر الشرعية: (معیار: الجعالة)
رقم البند: 3- التعريف: الجعالة عقد يلتزم فيه أحد طرفيه (وهو الجاعل) بتقديم عوض معلوم (وهو الجعل) لمن يحقق نتيجة معينة فى زمن معلوم أو مجهول (وهو العامل)......
۲/۸ تحصیل الدیون: تطبق الجعالة علی تحصیل الدیون في الحالة التی یکون الجعل فیها مشروطا بتحصیل الدین کله فیستحق الجعل کله، أو تحصیل مقدار منه فیستحق من الجعل بنسبة ما حصله من الدین.
مجلة مجمع الفقه الإسلامي: (860/2، بترقيم الشاملة آليا)
فإن الجعالة: أن يجعل جائز التصرف شيئا معلوما لمن يعمل له عملا معلوما أو مجهولا من مدة معلومة أو مجهولة- فلا يشترط العلم بالعمل ولا المدة ولا تعيين العامل للحاجة. فهي إذن: التزام مال في مقابلة عمل لا على وجه الإجارة فليس ما هنا مما هنالك إضافة إلى أن الجعالة: عقد جائزمن الطرفين لكل من العاقدين فسخها بخلاف الإجارة فهي عقد لازم ابتداء
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی