سوال:
ہم چار بھائی ہیں، جن میں سے تین بھائیوں نے اپنا اپنا الگ مکان بنا لیا ہے، چوتھا بھائی والدین کے ساتھ رہتا ہے، وہ مکان والد صاحب کا ہی ہے، والد نے انتقال سے دو تین مہینے پہلے پورا مکان چھوٹے بیٹے کے نام وصیت کرکے لکھ دیا، اب سوال یہ ہے کہ میرے والد صاحب کا یہ وصیت کرنا جائز ہے یا نہیں اور اس وصیت کی وجہ سے مکان سے دیگر ورثہ کا حق ختم ہو گیا ہے یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ وارث کے حق میں وصیت نہیں کی جاسکتی، چنانچہ حدیث شریف میں ہے: آپ ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کا حصہ مقرر کردیا ہے، لہٰذا اب کسی وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں ہے۔" (سنن ترمذی، حدیث نمبر:2121)
پوچھی گئی صورت میں آپ کے والد کی اپنے چھوٹے بیٹے کے حق میں مکان کی وصیت کرنا باطل ہے، لہذا ان کا میراث میں چھوڑا ہوا گھر ان کے تمام شرعی ورثاء میں شریعت کے میراث کے قانون کے مطابق تقسیم ہوگا۔ ہاں! اگر تمام ورثاء بخوشی اس وصیت پر عمل کرنے پر آمادہ ہوں تو اس کی اجازت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 2121، ط: دار الغرب الاسلامی)
عَنْ عَمْرِو بْنِ خَارِجَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ عَلَى نَاقَتِهِ، وَأَنَا تَحْتَ جِرَانِهَا، وَهِيَ تَقْصَعُ بِجِرَّتِهَا، وَإِنَّ لُعَابَهَا يَسِيلُ بَيْنَ كَتِفَيَّ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: " إِنَّ اللَّهَ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ، وَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ۔۔۔الخ
الهداية: (514/4، ط: دار إحياء التراث العربي)
قال: "ولا تجوز لوارثه" لقوله عليه الصلاة والسلام: "إن الله تعالى أعطى كل ذي حق حقه، ألا لا وصية لوارث" ولأنه يتأذى البعض بإيثار البعض ففي تجويزه قطيعة الرحم ولأنه حيف بالحديث الذي رويناه، ويعتبر كونه وارثا أو غير وارث وقت الموت لا وقت الوصية لأنه تمليك مضاف إلى ما بعد الموت، وحكمه يثبت بعد الموت.
بدائع الصنائع: (338/7، ط: دار الكتب العلمية)
ولو أوصى لبعض ورثته، فأجاز الباقون؛ جازت الوصية؛ لأن امتناع الجواز كان لحقهم لما يلحقهم من الأذى والوحشة بإيثار البعض، ولا يوجد ذلك عند الإجازة، وفي بعض الروايات عنه - عليه الصلاة والسلام - أنه قال «لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة»، ولو أوصى بثلث ماله لبعض ورثته ولأجنبي، فإن أجاز بقية الورثة؛ جازت الوصية لهما جميعا.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی