سوال:
مفتی صاحب! ایک نکاح ہوئے جوڑے میں رخصتی سے پہلے فون پر گفتگو کے دوران بحث اور جھگڑے کی وجہ سے پندرہ دن سے بات نہی ہو رہی تھی، شوہر کو لگا بیوی کی غلطی ہے اور بیوی کو لگا شوہر کی غلطی ہے، اس میں پندرہ دن تک بات نہ ہوئی، جب بات ہوئی تو لڑکی نے غصے میں اپنے منکوح سے کہا کہ مجھے چھوڑ دو، اس لڑکی کا مقصد طلاق تھا، جبکہ وہ دل سے نہیں کہہ رہی تھی، صرف غصے میں کہہ رہی تھی کہ مجھے چھوڑ دو۔
لڑکے نے کہا میں مر کر بھی تمہیں کبھی نہیں چھوڑ سکتا اور لڑکے نے کہا کہ کیسا چھوڑنا کہہ رہی ہو؟ لڑکی نے کہا رشتہ ختم کرنا ہے تو شوہر نے کہا میں کسی بھی حالت میں نہی چھوڑوں گا، پھر تھوڑی دیر بعد لڑکے کی طبیعت خراب ہوگئی اور لڑکے نے کہا: جیسا تم نے کہا میں نے تمہیں ویسے چھوڑ دیا جیسے تم خوش، مگر لڑکا قسم کھا کر کہہ رہا کہ اس سے میری نیت طلاق کی ہرگز نہیں تھی، اور نہ مجھے علم تھا کہ اس طرح کہدینے سے طلاق ہو جاتی ہے، بس لڑکی کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے کہا تھا، اس مسئلے میں طلاق ہونے یا ہونے کے اعتبار سے شریعت کا کیا حکم ہے؟ رہنمائی فرمادیں۔
تنقیح: محترم اس بات کی وضاحت کردیں کہ نکاح کے بعد دونوں کے درمیان خلوتِ صحیحہ (کسی مانع کے بغیر تنہائی میں ملاقات) پائی گئی ہے یا نہیں؟
اس وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے گا۔
جواب تنقیح:
جی! خلوت صحیحہ ہوئی ہے۔
جواب: واضح رہے کہ "چھوڑ دیا" کا لفظ ہمارے عرف میں طلاق کے لیے صریح بن چکا ہے، لہذا اس سے بلا نیت بھی طلاقِ رجعی واقع ہوجاتی ہے، خاص طور پر لڑائی جھگڑے کے موقع پر جب بیوی کے متعلق یہ لفظ استعمال کیا جائے۔
پوچھی گئی صورت میں بیوی کی جانب سے لڑائی جھگڑے کے موقع پر طلاق کے مطالبہ کے لیے "مجھے چھوڑ دو" کے الفاظ کہنے کے جواب میں شوہر کی طرف سے مذکورہ الفاظ (جیسا تم نے کہا میں تمہیں ویسے چھوڑدیا) کہنے کی وجہ سے ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگئی ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ عدت کے دوران شوہر اگر رجوع کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔
رجوع کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر زبان سے کہہ دے کہ "میں نے رجوع کرلیا ہے" تو رجوع ہوجائے گا اور بہتر یہ ہے کہ اس پر دو گواہ بھی بنالے۔ اگر زبان سے کچھ نہ کہے، مگر آپس میں میاں بیوی کا تعلق قائم کرلے یا شہوت کے ساتھ اس کو ہاتھ لگالے، تب بھی رجوع ہو جائے گا، البتہ اگر عدت گزر گئی تو پھر باہمی رضامندی سے نیا مہر مقرر کرکے گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہوگا، لیکن یہ یاد رہے کہ رجوع یا نیا نکاح کرنے کی صورت میں شوہر کے پاس آئندہ کے لیے صرف دو طلاقوں کا اختیار رہے گا، اس لیے طلاق کے معاملہ شوہر کے لیے میں سخت احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (299/3، ط: دار الفکر)
بخلاف فارسية قوله سرحتك وهو رهاء كردم لأنه صار صريحا في العرف على ما صرح به نجم الزاهدي الخوارزمي في شرح القدوري اه وقد صرح البزازي أولا بأن: حلال الله علي حرام أو الفارسية لا يحتاج إلى نية، حيث قال: ولو قال حلال أيزدبروي أو حلال الله عليه حرام لا حاجة إلى النية، وهو الصحيح المفتى به للعرف وأنه يقع به البائن لأنه المتعارف ثم فرق بينه وبين سرحتك فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت، لكن لما غلب استعمال حلال الله في البائن عند العرب والفرس وقع به البائن ولولا ذلك لوقع به الرجعي
الفتاوى الهندية: (469/1، ط: دار الفكر)
وكما تثبت الرجعة بالقول تثبت بالفعل وهو الوطء واللمس عن شهوة كذا في النهاية
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی