سوال:
السلام علیکم، حضرات یہ بات پوچھنی تھی کہ اگر مکھی چائے میں گر جائے تو مکھی اندر ڈبو کے نکال کے چائے پینی چاہیے، جب کہ ایسا کرنے میں کراہت محسوس ہوتی ہے؟ اور کہا یہ جاتا ہے کہ یہ سنت طریقہ ہے، کیا واقعی یہ سنت ہے یا ایسے ہی پھیلای ہوئی بات ہے؟ رہنمائی فارمائیں جزاک اللہ
جواب: جی ! مذکورہ بات حدیث میں موجود ہے، البتہ آپ ﷺ نے مکھی کو چائے، سالن اور پانی وغیرہ کے اندر جو ڈبو کر نکالنے کا حکم دیا ہے، یہ آپﷺ نے بطورِ شفقت کے فرمایا ہے کہ اگر کسی کو پینا ہی ہو تو وہ پوری مکھی ڈبونے کے بعد پی لے، لہذا اگر کسی کی طبیعت کو کراہت ہوتی ہے اور وہ نہیں پینا چاہتا تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے اور نہ شریعت نے اس کو اس پینے پر مجبور کیا ہے، البتہ چائے اگر اتنی گرم ہو یا اس میں مکھی اتنی دیر تک پڑی رہی ہو کہ اس کے اجزاء کا مشروب میں مل جانے کا ظن غالب ہو جائے تو اس صورت میں اس کا پینا درست نہیں، کیوں کہ یہ صحت کے لیے مضر ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (کتاب بدء الخلق، باب إذا وقع الذباب في شراب أحدکم، رقم الحدیث: 3320، ط: دار الفکر)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ یقول: قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا وقع الذباب في شراب أحدکم فلیغمسہ ثم لینزعہ، فإن في إحدیٰ جناحیہ دائً والأخریٰ شفائً۔
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مکھی پانی میں گر جائے تو اس کو اسی میں غوطہ دو، پھر اس کو نکال دو، کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہوتی ہے اور دوسرے میں شفاء ہوتی ہے۔
أصول الشاشی: (ص: 28)
وعلیٰ ھذا قلنا فی قولہ علیہ السلام اذا وقع الذباب فی طعام أحدکم فامقلوہ ثم انقلوہ فان فی احدی جناحیہ داء وفی الأخری دواء وإنہ لیقدم الداء علی الدواء دل سیاق الکلام علی أن المقل لدفع الأذی عنا، لاللأمر تعبدی حقا للشرع فلایکون للإیجاب۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی