سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! اگر کسی خاتون کے پاس ایک تولے کے قریب گولڈ ہو اور پیسے نہ ہوں قربانی کے لیے اور وہ اپنے بھائی سے کہے کہ تم قربانی میں میری طرف سے بھی ایک حصہ ڈال دینا اور گوشت وغیرہ کچھ نہیں دینا، تو ایسی صورت میں قربانی ہوجائے گی؟ بھائی خوشی سے اپنی بہن کی طرف سے حصہ ڈال سکتا ہے، اپنی گائیں میں؟ برائے مہربانی رہنمائی فرما دیں۔جزاک اللہ
جواب: 1۔واضح رہے کہ قربانی ہر اس مقیم ( نہ کہ مسافر) مسلمان، عاقل، بالغ (مرد یا عورت) کے ذمہ واجب ہوتی ہے، جس کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی ہو، یا ان دونوں زیوروں کو ملا کر ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت بنتی ہو، یا پھر ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے بقدر مال ہو، جو اس شخص کی ضرورت سے زائد ہو، یہ ضرورت سے زائد مال درج ذیل صورتوں میں موجود ہو سکتا ہے:
مال تجارت، نقدی، زیورات ، گھریلو ساز و سامان ( جو سارا سال استعمال نہیں ہوتا) رہائشی مکان کے علاوہ کوئی زائد از ضرورت مکان یا پلاٹ ہو۔
نیز یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اس نصاب پر زکوٰۃ کے نصاب کی طرح سال گزرنا شرط نہیں ہے، بلکہ اس نصاب کا اعتبار خاص عید الاضحیٰ کے تین دنوں میں ہوگا، ان تین دنوں میں مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق جو صاحب نصاب ہوگا اس پر قربانی واجب ہوگی، لہذا صورت مسئولہ اگر اس خاتون کے پاس ایک تولہ سونے کے ساتھ چاندی یا ضرورت زائد کوئی سامان یا کچھ نقدی ہو، تو اس پر قربانی واجب ہے۔
2۔ اپنی قربانی کا دوسرے کو وکیل و نمائندہ بنانا کہ وہ دوسرا شخص اس کی طرف سے قربانی کرلے یا اپنے بڑے جانور میں ایک حصہ کسی کو ہبہ کرکے اس کی طرف سے وکیل بن کر قربانی کرلے، تو جائز ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں اگر بھائی اپنی بہن کی طرف سے بہن کی اجازت سے قربانی کرلے، تو جائز ہے۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی