resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: جمعہ کے دن سورة الکھف کی ابتدائی تین آیات یا دس آیات یا آخری دس آیات پڑھی جائیں یا مکمل سورة الکھف پڑھی جائے، اس سے متعلق روایات کی تحقیق (1971-No)

سوال: جمعہ کے دن جو سورۃ کہف پڑھی جاتی ہے، کیا وہ پوری پڑھنا ضروری ہے یا شروع کی 10 آیت یا پھر آخری 10 آیت یا ان تینوں میں سے کس طرح پڑھنا ضروری ہے؟ احادیث سے تفصیلی بتا دیں۔

جواب: دجال کے فتنے سے بچنے کے لئے سورۃ کہف پڑھنے سے متعلق چارقسم کی روایات ملتی ہیں ۔
پہلی قسم :سورۃ کہف کی ابتدائی دس آیات حفظ کرنے سے فتنہ دجال سے حفاظت ہوتی ہے۔
مسلم شریف میں ہے:حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم ﷺ نےارشاد فرمایا:جو شخص سورۃ کہف کی ابتدائی دس آیات یاد کرے گا، وہ دجال کے فتنہ سے بچالیا جائے گا۔(صحيح مسلم:809)(۱)
دوسری قسم:
سورۃ کہف کی آخری دس آیات پڑھنے سے دجال کے فتنے سے حفاظت ہوتی ہے۔
اس کی دلیل بھی مسلم ہی کی روایت ہے، جو امام مسلم نے شعبہ کی سند سے نقل کی ہے، شعبہ فرماتے ہیں کہ مذکورہ بالا فضیلت سورة الکھف کی آخری دس آیات کے حفظ کرنے سے متعلق ہے۔
اسی طرح امام نسائی نے السنن الکبری میں روایت نقل کی ہے : حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس نے سورۃ الکہف کى آخرى دس آیات کى تلاوت کى، تو یہ تلاوت دجال سے حفاظت کا ذریعہ ہوگى۔(السنن الکبری للنسائی،حدیث نمبر: 10718)(۲)
تیسری قسم :
سورۃ کہف کی ابتدائی تین آیات پڑھنے سے بھی فتنہ دجال سے حفاظت کا ذکر ہے۔
حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم ﷺ نےارشاد فرمایا:جس نے سورۃ کہف کی ابتداء سے تین آیات کی تلاوت کی، وہ دجال کے فتنے سے بچا لیا جائے گا۔امام ترمذی نے اس روایت کو حسن صحیح قراردیا ہے۔(سنن الترمذی،حدیث نمبر:2886)(۳)
چوتھی قسم:
مکمل سورہ کہف کی تلاوت سے دجال کے فتنے سے حفاظت کا ذکرہے، وہ درج ذیل احادیث ہیں:
۱۔حضرت ابوسعید خدری رضي اللہ تعالی عنہ سے موقوفاً مروی ہے کہ جس نے جمعہ کی رات سورۃ الکھف پڑھی اس کے اور بیت اللہ کے درمیان نور کی روشنی ہوجاتی ہے۔(سنن دارمی،حدیث نمبر:3407)(۴)
حافظ رحمہ اللہ نے اس حدیث کے موقوف ہونے کو صحیح قرار دیتے ہوئے، اس موقوف حدیث کو "موقوف بحکم المرفوع" قرار دیا ہے، کیونکہ سورۃ الکہف کى فضیلت سے متعلق حضرت ابو سعید خدرى رضی اللہ نے جو مضمون بیان فرمایا ہے، وہ مضمون ایسا ہے کہ کوئى شخص اپنى عقل اور رائے کى بنیاد پر نہیں بیان کر سکتا ہے، یقینا حضرت ابو سعید خدرى رضی اللہ عنہ نے یہ مضمون جانب رسول اللہ ﷺ کی زبان حق ترجمان سے سنا ہوگا، اس لیے یہ حدیث موقوف ہونے کے باوجود مرفوع کے حکم میں اور "صحیح" ہے۔(۵)
۲ ۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جناب رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :جس نے جمعہ کے دن سورۃ الکھف پڑھی اس کے قدموں کے نیچے سے لے کر آسمان تک نور پیدا ہوتا ہے، جو قیامت کے دن اس کے لیے روشن ہوگا اور ان دو جمعوں کے درمیان والے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔( السنن والأحكام للضياء المقدسي،حدیث نمبر:2305)(۶)
علامہ منذری (م656ھ)فرماتے ہیں کہ ابوبکر بن مردویہ نے اسے تفسیر میں روایت کیا ہے، جس کی سند میں کوئ حرج نہیں ۔(۷)
خلاصہ کلام:
ان ساری روایات کے مجموعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مکمل سورة کھف کی تلاوت بہتر ہے، اس لیے مکمل تلاوت کرنے کی صورت میں ابتدائی تین آیات، دس آیات اور آخری دس آیات والی روایات پر بھی عمل ہوجاتا ہے اور مکمل پڑھنے سے متعلق درج بالا روایات میں حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کے متعلق حافظ ابن حجرعسقلانی(م852ھ) رحمہ اللہ تعالی ‘‘نتائج الأفکار’’ میں لکھتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے ، اور ان کا کہنا ہے کہ سورۃ الکھف کے بارے میں سب سےقوی یہی حديث ہے، لہذا بہتر یہ ہے کہ مکمل سورة پڑھی جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

(۱)صحيح مسلم:(1/555،رقم الحديث:809،ط:دارإحياء التراث العربي)
عن أبي الدرداء، أن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «من حفظ عشر آيات من أول سورة الكهف عصم من الدجال».

(۲)السنن الكبرى للنسائي:( 9/ 347،رقم الحدیث:10718، ط: مؤسسة الرسالة)
عن ثوبان عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من قرأ العشر الأواخر من سورة الكهف فإنه عصمة له من الدجال»

(۳) سنن الدارمي:(4/2143،رقم الحديث:3407،ط: دارالمغنی للنشر )
حدثنا أبو النعمان ، حدثنا هشيم ، حدثنا أبو هاشم ، عن أبي مجلز ، عن قيس بن عباد ، عن أبي سعيد الخدري قال : من قرأ سورة الكهف ليلة الجمعة أضاء له من النور فيما بينه وبين البيت العتيق .
هذا الحديث قد روي مرفوعا وموقوفا، والمحفوظ وقفه،وقال الحافظ في "نتائج الأفكار" 5/ 37: أما قراءة سورة الكهف فأقوى ما ورد فيها حديث أبي سعيد. ثم ذكر الحديث بإسناده، عن يزيد بن مخلد، وعن نعيم بن حماد، عن هشيم، عن أبي هاشم، به، مرفوعا، بلفظ: "من قرأ سورة الكهف يوم الجمعة أضاء له ما بينه وبين البيت العتيق"، وقال هذا لفظ يزيد، وفي رواية نعيم: "أضاء له من النور ما بين الجمعتين". وقال: واختلف على هشيم في رفعه ووقفه، والذين وقفوه عنه أكثر وأحفظ، لكن له مع ذلك حكم المرفوع، إذ لا مجال للرأي فيه. ثم ذكر رواية شعبة، به، وقال في آخره: ورجال الموقوف في هذه الطرق كلها أتقن من رجال المرفوع. فالحاصل: أن المحفوظ في الحديث وقفه على أبي سعيد رضي الله عنه بدون ذكر الجمعة فيه، وزيادة يوم الجمعة في طريق قبيصة شاذة. والله تعالى أعلم بالصواب. وقال الشيخ الألباني في "السلسلة الصحيحة" 6/ 312، رقم الحديث: (2651): خلاصة القول: إن الحديث صحيح، لأنه وإن كان الأرجح سندا الوقف، فلا يخفى أن مثله لا يقال بالرأي، فله حكم الرفع. والله أعلم.

(۴)السنن والأحكام للضياء المقدسي:(2/389،رقم الحديث:2305،ط:دارماجدعيسري)
أخبرنا أبو بكر محمد بن محمد بن أبي القاسم التميمي المؤدب -بأصبهان- أن أبا الخير محمد بن رجاء بن إبراهيم بن عمر بن الحسن بن يونس أخبرهم -قراءة عليه- (أنا) أحمد بن عبد الرحمن الذكواني، أبنا أبو بكر أحمد ابن موسى بن مردويه، ثنا محمد بن علي بن يزيد بن سنان، ثنا إسحاق بن إبراهيم المنجنيقي، ثنا إسماعيل بن أبي خالد المقدسي، ثنا محمد بن خالد البصري، ثنا خالد بن سعيد بن أبي مريم، عن نافع، عن ابن عمر قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "من قرأ سورة الكهف في يوم الجمعة سطع له نور من تحت قدمه إلى عنان السماء، يضيء به يوم القيامة، وغفر له ما بين الجمعتين" .
رواه أبو بكر بن مردويه في تفسيره بإسناد لا بأس به

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

jummay kay din sora e kahaf ki ibtidai teen aayat ya das aayat ya aakhri das aayat parhi jain ya mikammal sora e kahaf parhi jaye is say mutalliq riwayat ki tehqeeq, Confirmation of hadith about The first three verses or ten verses or the last ten verses of Surah Al-Kahf should be recited on Friday or the complete Surah Al-Kahf should be recited.

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees