سوال:
امام بیہقی نے حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر زمانہ کا بادشاہ اس زمانہ والوں کے دلوں کے حالات کے مطابق بھیجتے ہیں۔ حضرت ! اس کی سند بیان کردیں۔
جواب: سوال میں ذکرکردہ الفاظ جناب رسول اللہ ﷺسے ثابت نہیں ہے،اس لیے ان الفاظ کوجناب رسول اللہ ﷺ کی طرف نسبت کرکے بطور مرفوع حدیث کے بیان کرنادرست نہیں ہے،البتہ حضرت کعب احبار رحمہ اللہ( جو کہ تابعی ہیں) سے منقول ہیں ،لہذا ان الفاظ کو کعب احبار رحمہ اللہ کی طرف نسبت کرکے بیان کیا جاسکتا ہے۔ ذیل میں کعب احبار کی روایت کا ترجمہ اور تخریج اور حضرت کعب احبار کی روایات کی اسنادی حیثیت ذکر کی جاتی ہے:
ترجمہ:حضرت کعب احبار رحمہ اللہ نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ ہر زمانہ کا بادشاہ اس زمانہ والوں کے دلوں کے حالات کے مطابق بھیجتے ہیں، جب ان سے بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں تو ان میں بھلائی کرنے والا بادشاہ بھیج دیتے ہیں اور جب ان کی ہلاکت کا ارادہ فرماتے ہیں تو ان میں عیش پرست بادشاہ بھیج دیتے ہیں۔(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر:7004)(۱)
تخریج کلام کعب الأحبار:
۱۔ان الفاظ کو امام بیہقی (م 458ھ)نے ’’شعب الإیمان‘‘(3/1132،رقم الحديث: 7004، ط: مکتبة الرشد)ذکرکیا ہے۔
۲۔حافظ أبونعیم أصفہانی(م 430ھ)نے ’’حلیة الأوليا‘‘(6/30،ط:دارالكتب العلمية) میں ذکرکیا ہے۔
۳۔امام ابوعمرو الدانی (م444ھ)نے ’’ السنن الواردة في الفتن‘‘(3/ 653،رقم الحدیث: 299،ط: دار العاصمة) میں ذکرکیا ہے۔
کعب احبار کی روایات کی اسنادی حیثیت :
واضح رہے کہ کعب احبار چونکہ ایک یہودی عالم تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں اسلام قبول کیا تھا،علمہ ابن سعد (م230ھ)نے آپ کو شام کے تابعین کے طبقہ ٔ اولیٰ میں شمار کیا ہے(۲)اور حضرت عبداللہ بن زبیر ،حضرت عبداللہ بن عمر ،حضرت معاویہ بن ابی سفیان اور حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہم نے آپ سے روایات بھی نقل کی ہیں ، حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ کعب الاحبار سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور صحابہ کی ایک جماعت نے روایت کی ہے۔علامہ زاہد الکوثری (م1371ھ)لکھتے ہیں : جمہور علمائے کرام نے کعب کی توثیق کی ہے، یہی وجہ ہے کہ ضعفاء و متروکین کی کتب میں آپ کو ان کا تذکرہ نہیں ملے گا۔امام ذہبی نے انہیں طبقات الحفاظ میں ذکر کیا ہے، اور ان کا مختصر سا تعارف ذکر کیا ہے۔ابن عساکرنے تاریخ دمشق میں آپ کاکھل کر تعارف پیش کیا ہے۔ابو نعیم نے ’’حلیۃ الأولیاء‘‘ میں کعب کے قصص، آپ کے مواعظ، آپ کی مجالس، آپ کی حضرت عمرکو نصائح، اور جنت و جہنم کے متعلق آپ کی روایات کو طویل سندکے ساتھ مفصل ذکر کیا ہے۔۔ ، البتہ ابو نعیم نے ان کا ماخذ ذکر نہیں کیا۔ ابن حجرنے ’’الإصابۃ‘‘ اور ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں آپ کا تعارف پیش کیا ہے۔ بہرحال نقاد محدثین آپ کی ثقاہت پر متفق ہیں۔ حضرت عمر، حضرت حذیفہ، حضرت ابوذر، حضرت ابن عباس، حضرت عوف بن مالک اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کعب پر کلی اطمینان نہیں رکھتے تھے، جب کہ حضرت ابن عمر، حضرت ابن عباس اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم نے کعب سے کچھ روایات بھی نقل کی ہیں، اس لیے کہ تمام اسرائیلیات ایک فیصلہ کن قاعدے کے تحت آتی ہیں کہ ان میں سے جس روایت کی شریعت اسلامیہ تصدیق کرے، اس کی تصدیق کی جائے اور شریعت اسلامیہ جس روایت کی تکذیب کرے، اس کی تکذیب کی جائے، اور اس کے علاوہ دیگر روایات کی تصدیق و تکذیب کے بارے میں توقف کیا جائے۔(۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
(۱)شعب الإیمان: (3/1132،رقم الحديث: 7004، ط: مکتبة الرشد)
أخبرنا محمد بن أحمد بن إبراهيم، في كتابه ثنا محمد بن أيوب، ثنا عبيد الله بن معاذ، ثنا أبي، ثنا عمران بن حدير، عن الشميط، قال كعب: إن لكل زمان ملكا يبعثه الله على نحو قلوب أهله فإذا أراد صلاحهم بعث عليهم مصلحا وإذا أراد الله هلكتهم بعث فيهم مترفيهم
وأخرجه أبونعيم في ’’الحلية‘‘(6/30) وأبوعمروالداني في’’ السنن الواردة في الفتن‘‘(3/ 653،( 299)
(۲)تهذيب الكمال:23/190،ط: مؤسسة الرسالة )
ذكره مُحَمَّد بْن سَعْد في الطبقة الأولى من أهل الشام بعد أصحاب رَسُول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم.
(۳)مقالات الكوثري:(48۔49،ط:المكتبة التوفيقية)
والجمهور على توثيق كعب، ولذا لا تجد له ذكراً في كتب الضعفاء والمتروكين، وقد ذكره الذهبي فى طبقات الحفاظ وترجم له ترجمة قصيرة وتوسع ابن عساكر في ترجمته في تاريخ دمشق وأطال أبو نعيم في الحلية الكلام في أخباره وعظاته ومجالسه وتخويفه لعمر وذكره للجنة والنار بإطالة بسند فيه فرات بن السائب من غير ذكر مصدره، وترجم له ابن حجر في الإصابة وتهذيب التهذيب، وقد اتفقت كلمة نقاد الحديث على توثيقه۔۔۔ فتبين من تلك النبذ أن عمر وحذيفة وأبا ذر وابن عباس وعوف بن مالك ومعاوية ما كانوا يأتمنون كعبا ائتماناً كاملا مع رواية ابن عمر وابن عباس وأبي هريرة عن كعب بعض روايات بالنظر إلى أن الأخبار الإسرائيلية تتبع القاعدة القاضية بتصديق ما صدقه الشرع الإسلامي وتكذيب ما كذبه والتوقف فيما سوى ذلك الحديث البخارى لا تصدقوا أهل الكتاب ولا تكذبوهم وقولوا آمنا بالله وما أنزل إلينا وما أنزل إليكم وإلهنا وإلهكم واحد ونحن له مسلمون.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی