سوال:
السلام علیکم،
مفتی صاحب ! ہمارے والد صاحب ہر سال ایک قربانی کیا کرتے تھے، انکے اور والدہ کے علم میں نہیں تھا کہ والدہ پر بھی قربانی واجب ہے۔ کچھ سال پہلے معلوم ہوا تو والدہ نے بھی شروع کر دی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جن سالوں میں قربانی لاعلمی کی بنا پر نہ کیں وہ معاف ہیں؟ یا ان کی قضا قربانی کرنا ہوگی؟ یا کوئی کفارہ ہے؟ یا اس کی مقدار کسی غریب کو دی جا سکتی ہے؟ یا کوئی اور صورت ہے ؟ رہنمائی فرمائیں۔
جزاك اللہ
جواب: اگر قربانی کے ایام گزر جائیں اور صاحب نصاب شخص نے قربانی نہ کی ہو، تو اب قربانی کی قضاء نہیں ہے، البتہ اس صورت میں ایک متوسط بکرا یا بکری یا اس کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہے، جبکہ بعض علماء کے نزدیک قربانی کے ایک حصے کے برابر رقم صدقہ کرنا بھی کافی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (321/6، ط: دار الفکر)
(ولو) (تركت التضحية ومضت أيامها)۔۔۔۔تصدق (بقيمتها غني شراها أولا) لتعلقها بذمته بشرائها أولا، فالمراد بالقيمة قيمة شاة تجزي فيها.
(قوله وتصدق بقيمتها غني شراها أو لا) كذا في الهداية وغيرها كالدرر. وتعقبه الشيخ شاهين بأن وجوب التصدق بالقيمة مقيد بما إذا لم يشتر، أما إذا اشترى فهو مخير بين التصدق بالقيمة أو التصدق بها حية كما في الزيلعي أبو السعود.
کذا فی فتاوی دار العلوم دیوبند: رقم الفتوی: 1359-1367/11/1435
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی