سوال:
گندم کی اسطرح بیع کرنا کہ ہزار روپے من کے اعتبار سے جب گندم تیار ہو جائے، تو پھر مجھے سو من گندم دینا، کیا یہ معاملہ درست ہے؟ یا اسی طرح بھوسے کی بیع کرنا کہ ابھی تین سو روپے من ریٹ کے اعتبار سے ہزار من کے پیسے لے لو، جب کٹائی کا وقت آئے، تو بھوسہ دے دینا، یہ درست ہے ؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ معاملے کو شریعت کی اصطلاح میں بیع سلم کہا جاتا ہے، یہ معاملہ درج ذیل شرائط کے ساتھ کرنا جائز ہے۔
١- جنس معلوم ہو( جو چیز خریدی جا رہی ہو اس کی جنس معلوم ہو)
٢- اس مبیع کی نوع معلوم ہو،( یعنی کونسی قسم ہے؟ )
٣- اس مبیع کی صفت( کوالٹی) معلوم ہو۔
۴- اس مبیع کی مقدار معلوم ہو۔
۵- معاملے کی مدت معلوم ہو۔
۶- جو پیسے پیشگی ادا کیے جارہے ہیں، ان کی مقدار معلوم ہو۔
٧- مبیع کی سپردگی کی جگہ معلوم ہو۔
٨- تمام رقم پیشگی ادا کی جائے اور مقررہ مدت کے بعد بائع اگر مطلوبہ چیز فراہم نہ کرسکے، تو ایسی صورت میں رقم ہی واپس کی جائے گی، اس کے بدلے کوئی اور چیز نہیں دی جائے گی۔
لہذا فریقین کو چاہیے کہ باہمی رضامندی سے ان شرائط کو آپس میں طے کرلیں، تو یہ عقد درست ہو جائے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (کتاب البیوع، باب السلم، 209،215/5، ط: سعید)
"السلم بیع آجل وہو المسلم فیہ بعاجل وہو رأس المال، ورکنہ رکن البیع … ویصح فیما أمکن ضبط صفتہ ومعرفۃ قدرہ کمکیل وموزون … وشرطہ: أي شروط صحتہ التي تذکر فی العقد سبعۃ بیان جنس، وبیان نوع وصفتہ وقدرہ وأجل … وبیان قدر رأس المال … والسابع بیان مکان الإیفاء للمسلم فیہ".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی