سوال:
مفتی صاحب ! نماز خوف کا طریقہ بیان فرمادیں۔
جواب: خوف (جنگ) کے وقت میں بھی افضل یہ ہے کہ الگ الگ امام کے پیچھے نماز پڑھیں، البتہ اگر سب لوگ ایک ہی امام کے پیچھے نماز پڑھنے پر اصرار کررہے ہوں یا وقت کم ہو تو پھر اس وقت امام ایک گروہ کو دشمن کے مقابل کردے اور دوسرا گروہ امام کے پیچھے نماز پڑھے، جب امام اس گروہ کے ساتھ ایک رکعت پڑھ چکے، یعنی پہلی رکعت کے دوسرے سجدے سے سر اٹھالے، تو یہ لوگ دشمن کے مقابل چلے جائیں، اور جو لوگ وہاں تھے، وہ نماز پڑھنے کے لیے آجائیں، اب ان کے ساتھ امام ایک رکعت پڑھے اور تشہد پڑھ کر امام سلام پھیر دے، مگر دوسری رکعت والے مقتدی سلام نہ پھیریں، بلکہ دشمن کے مقابل چلے جائیں یا یہیں اپنی نماز پوری کرکے چلے جائیں اور وہ گروہ جس نے پہلی رکعت امام کے ساتھ پڑھی تھی، وہ آجائیں اور ایک رکعت بغیر قراءت کے پڑھ کر تشہد کے بعد سلام پھیردیں۔
نوٹ: یہ طریقہ دو رکعت والی نماز کا ہے، خواہ نماز ہی دو رکعت کی ہو، جیسے فجر و عید و جمعہ یا سفر کی وجہ سے چار کی دو ہوگئیں ہوں اور چار رکعت والی نماز ہو، تو ہر گروہ کو امام دو دو رکعت پڑھائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الآیۃ: 102)
وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ وَلْيَأْخُذُوا أَسْلِحَتَهُمْ فَإِذَا سَجَدُوا فَلْيَكُونُوا مِن وَرَائِكُمْ وَلْتَأْتِ طَائِفَةٌ أُخْرَىٰ لَمْ يُصَلُّوا فَلْيُصَلُّوا مَعَكَ وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ ۗ وَدَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ تَغْفُلُونَ عَنْ أَسْلِحَتِكُمْ وَأَمْتِعَتِكُمْ فَيَمِيلُونَ عَلَيْكُم مَّيْلَةً وَاحِدَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن كَانَ بِكُمْ أَذًى مِّن مَّطَرٍ أَوْ كُنتُم مَّرْضَىٰ أَن تَضَعُوا أَسْلِحَتَكُمْ ۖ وَخُذُوا حِذْرَكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًاo
مشکوۃ المصابیح:
وَعَنْ یَزِیْدَ بْنِ رُوْمَانَ رحمۃ اللہ علیہ عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ عَمَّنْ صَلّٰی مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَوْمَ ذَاتِ الرِّقَاعِ صَلٰوۃَ الْخَوْفِ اَنَّ طَائِفَۃً صَفَّتْ مَعَہ، وَ طَائِفَۃٌ وِجَاہَ الْعَدُوِّ فَصَلّٰی بِالَّتِیْ مَعَہ، رَکْعَۃً ثُمَّ ثَبَتَ قَائِمًا وَاَتَمُّوْا لِاَنْفُسِھِمِ ثُمَّ انْصَرَ فُوْا فَصَفُّوْا وِجَاہَ الْعَدُوِّ وَجَاءَ تِ الطَّائِفَۃُ الْاُخْرٰی فَصَلّٰی بِھِمُ الرَّکْعَۃَ الَّتِیْ بَقِیَتْ مِنْ صَلٰوتِہٖ ثُمَّ ثَبَتَ جَالِساً وَاَتَمُّوْا لِاَ نْفُسِھِمْ ثُمَّ سَلَّمَ بِھِمْ.
الدر المختار مع رد المحتار: (187/2)
هذا وإن تنازعوا في الصلاة خلف واحد وإلا فالأفضل أن يصلي بكل طائفة إمام.
(قوله: وهذا) أي ما ذكر من الصلاة على هذا الوجه إنما يحتاج إليه لو لم يريدوا إلا إماما واحدا، وكذا لو كان الوقت قد ضاق عن صلاة إمامين كما في الجوهرة.
قلت: ويمكن أن يكون هذا مراد صاحب مجمع الأنهر فيما تقدم فتأمل (قوله: فالأفضل إلخ) أي فيصلي الإمام بطائفة ويسلمون ويذهبون إلى جهة العدو ثم تأتي الطائفة الأخرى فيأمر رجلا ليصلي بهم.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی