سوال:
مفتی صاحب! رہنمائی فرمائیں کہ اگر کوئی عورت شرعی پردہ کرنا چاہے تو چہرے، ہاتھوں اور پیروں کو بھی ڈھانپ کر رکھنا ہوگا؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ رشتہ داروں میں کس رشتے سے شرعی پردہ کرنے کا حکم ہے؟
جواب: واضح رہے کہ عورت پر لازم ہے کہ اجنبی مردوں اور نامحرم رشتہ داروں کے سامنے اپنے پورے جسم (بشمول چہرہ، ہاتھ اور پیر) کو پردہ کرکے چھپائے، البتہ اگر ایک گھر میں رہنے کی وجہ سے نامحرم رشتہ داروں (مثلاً: جیٹھ، دیور وغیرہ) کا بار بار آنا جانا رہتا ہو جس کی وجہ سے عورت کے لیے ہر بار چہرہ اور ہاتھ چھپانے کی وجہ سے کام کاج میں دشواری ہوتی ہو تو اس ضرورت کے پیش نظر عورت کے لیے اس بات کی گنجائش ہے کہ وہ کام کاج کے دوران اپنا چہرہ اور ہاتھ کھول سکتی ہے، لیکن نا محرم رشتہ داروں سے تنہائی اختیار کرنے، بلا ضرورت باتیں کرنے، ہنسی مذاق کرنے اور ان کے سامنے چست اور باریک لباس میں سامنے آنے سے اجتناب کرنا عورت پر لازم ہے۔
نیز وہ نامحرم رشتہ دار جن سے پردہ کرنا عورت پر فرض ہے، وہ درج ذیل ہیں :
(1) چچا زاد (2) پھوپھی زاد (3) ماموں زاد (4) خالہ زاد (5) دیور (6) جیٹھ (7) بہنوئی (8) نندوئی (9) پھوپھا (10) خالو (11) شوہر کا چچا (12) شوہر کا ماموں (13) شوہر کا پھوپھا (14) شوہر کا خالو (15) شوہر کا بھتیجا (16) شوہر کا بھانجا۔ (از رسالہ شرعی پردہ، مؤلفہ مفتی رشید احمد لدھیانوی صاحب رحمہ اللہ، ص: 72)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (369/6، ط: دار الفکر)
(و) ينظر (من الأجنبية) ولو كافرة مجتبى (إلى وجهها وكفيها فقط) للضرورة ... (وعبدها كالأجنبي معها) فينظر لوجهها وكفيها فقط. ... (فإن خاف الشهوة) أو شك (امتنع نظره إلى وجهها) فحل النظر مقيد بعدم الشهوة وإلا فحرام وهذا في زمانهم، وأما في زماننا فمنع من الشابة قهستاني وغيره (إلا) النظر لا المس (لحاجة) كقاض وشاهد يحكم (ويشهد عليها).
(قوله: وكفيها) تقدم في شروط الصلاة أن ظهر الكف عورة على المذهب اه ولم أر من تعرض له هنا (قوله قيل والقدم) تقدم أيضا في شروط الصلاة أن القدمين ليسا عورة على المعتمد اه وفيه اختلاف الرواية، والتصحيح، وصحح في الاختيار أنه عورة خارج الصلاة لا فيها ورجح في شرح المنية كونه عورة مطلقا بأحاديث كما في البحر.
(قوله وعبدها كالأجنبي معها) لأن خوف الفتنة منه كالأجنبي بل أكثر لكثرة الاجتماع والنصوص المحرمة مطلقة
(قوله وأما في زماننا فمنع من الشابة) لا لأنه عورة بل لخوف الفتنة كما قدمه في شروط الصلاة.
کذا فی فتاوی دار العلوم کراتشي (امداد السائلین): (137/6)
کتاب النوازل: (405/5)
والله تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی