عنوان: بالغ ہونے سے پہلے چوری کی گئی رقم کا حکم (21334-No)

سوال: حضرت! بچپن کے اندر کوئی بچہ تیرہ سے چودہ سال کی عمر یا اس سے بھی کم عمر میں اگر کسی کی کوئی معمولی سی ایک آدھ دفعہ رقم لیتا ہے تو کیا قیامت کے دن اس کو اپنی نیکیاں دینی پڑیں گی؟ حالانکہ اس وقت اس کی عقل کا وہ لیول نہیں ہوتا ہے۔ اس مسئلہ کے بارے میں رہنمائی فرما دیں۔

جواب: واضح رہے کہ اگر نابالغ بچہ یا بالغ لڑکا لڑکپن کی غفلت اور ناسمجھی کی وجہ سے چوری کر لے تو اس کے ذمّہ شرعاً لازم ہے کہ وہ رقم اس کے مالک کو واپس کرے، خواہ کسی بھی نام سے واپس کرے، اس کے سامنے چوری کا اقرار کرنا لازم نہیں ہے۔
تاہم نابالغ بچہ چونکہ مکلّف نہیں ہوتا، اس لیے اس کو اس فعل کا گناہ نہیں ہوگا، البتہ بالغ لڑکا مکلّف ہونے کی وجہ سے گناہ گار بھی ہوگا، لہذا اس پر لازم ہے کہ اپنے اس فعل پر ندامت کے ساتھ توبہ و استغفار کرے۔
سوال میں ذکر کردہ صورت میں 13 یا 14 سال کی عمر میں چوری کی ہوئی رقم اس کے مالک کو لوٹانا اس شخص کے ذمہ لازم ہے، تاہم گناہ گار ہونے یا نہ ہونے میں سابقہ تفصیل کے مطابق اس لڑکے کا چوری کے زمانے میں بالغ ہونے یا نہ ہونے کے مطابق حکم ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار: (182/6، ط: دار الفكر)
في البزازية غصب دراهم إنسان من كيسه ثم ردها فيه بلا علمه برئ وكذا لو سلمه إليه بجهة أخرى كهبة أو إيداع أو شراء وكذا لو أطعمه فأكله خلافا للشافعي زيلعي.

شرح المجلة للخالد الاتاسي: (المادة: 916، ط: مكتبة رشيدية)
المادة: ٩١٦: اذا أتلف صبي مال غيره يلزم الضمان من ماله وإن لم يكن له مال ينتظر الى حال يساره ولا يضمن وليه.
لأن الصغير وإن كان محجورا عليه لذاته إلا أن الحجر عليه في أقواله لا في أفعاله فهو مؤاخذ بأفعاله فيضمن ما أتلفه من المال.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 83 Oct 01, 2024

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Characters & Morals

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.