سوال:
مفتی صاحب! معلوم یہ کرنا تھا کہ صلہ رحمی میں جو تعلق توڑے اس سے جوڑو کا حکم ہے، اب ایسے رشتہ دار جو نہ ملنے میں پہل کرتا ہے، نیز کینہ اور بدگمانی کا کھل کر اظہار کرتا ہے، اس سے ملنے میں اپنا دل خراب ہوتا ہے تو ایسے رشتہ دار سے کتنے دن میں ملیں؟ تاکہ اس حکم پر عمل ہوجائے، نیز کیا اس کے گھر جائیں یا موبائل پر دعا و سلام کرلیں تو کافی ہوگا؟
جواب: واضح رہے کہ جو رشتہ دار قطع رحمی سے تعلق رکھنے والے کاموں (سلام نہ کرنا، کینہ، بغض اور بدگمانی وغیرہ رکھنا) کے مرتکب ہورہے ہیں، ایسے رشتہ داروں کے ساتھ تعلق رکھنے ہی میں صلہ رحمی کی اصل فضیلت ہے، جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بدلہ دینے والا صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے، بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ شخص ہے کہ جب اس سے رشتہ داری قطع کی جائے تو وہ اس کو جوڑ دے"۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5991)
لہذا صلہ رحمی کی خاطر غمی خوشی کے موقع پر یا عام حالات میں بھی وقتاً فوقتاً کبھی کبھار فون پر یا گھر جاکر ایسے رشتہ داروں کے حال احوال پوچھنا چاہیے اور اگر وہ ضرورت مند ہوں اور آپ کے بس میں ان کی ضرورت پورا کرنا ہو تو ان کی حاجات و ضروریات کو پورا کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 5991، 6/8، ط: دار طوق النجاة)
عن عبد الله بن عمرو قال سفيان لم يرفعه الأعمش إلى النبي صلى الله عليه وسلم ورفعه حسن وفطر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ليس الواصل بالمكافئ، ولكن الواصل الذي إذا قطعت رحمه وصلها.
الدر المختار مع رد المحتار: (411/6، ط: دار الفکر)
(وصلة الرحم واجبة ولو) كانت (بسلام وتحية وهدية) ومعاونة ومجالسة ومكالمة وتلطف وإحسان ويزورهم غبا ليزيد حبا بل يزور أقرباءه كل جمعة أو شهر ولا يرد حاجتهم لأنه من القطيعة في الحديث «إن الله يصل من وصل رحمه ويقطع من قطعها» وفي الحديث: «صلة الرحم تزيد في العمر»
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی