عنوان: زندگی میں وارث کو جو چیز ملکیتاً دے دی جائے، وہ اس کا مالک ہوگا (21381-No)

سوال: مفتی صاحب! کیا والد اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا کچھ حصہ اپنی کسی ایک اولاد کے نام کرسکتا ہے؟ کیا ایسا کرنے سے باقی بچوں کا حصہ اس سے ختم ہوجائے گا؟

جواب: واضح رہے کہ زندگی میں اپنی جائیداد میں سے کسی کو کچھ دینا شرعاً ہبہ (گفٹ) کہلاتا ہے، اس لیے اگر کسی کو کچھ دینا چاہیں تو اس کو مالک و قابض بناکر دینا لازم ہے، قبضہ دیے بغیر صرف نام کر دینے سے ہبہ (Gift) تام نہیں ہوتا، مالک و قابض بناکر دینے کی صورت میں ہبہ کرنے والے کے انتقال کے بعد ہبہ کیا ہوا حصہ ہبہ کرنے والے کے ترکہ میں شامل نہیں ہوگا، بلکہ جس کو اپنی زندگی میں جو حصہ قابض و مالک بناکر دیا گیا تھا، وہی اس کا مالک ہوگا۔
نیز واضح رہے کہ جس مکان میں ہبہ کرنے والے کی رہائش موجود ہو، جب تک ہبہ کرنے والا اس مکان کا مکمل قبضہ نہ دے دے، اس وقت تک وہ مکان ہبہ کرنے والے کی ملیکت میں ہی رہتا ہے اور اس میں ہبہ تام نہیں ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار: (689/5، ط: دار الفکر)
"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة"

الهندية: (374/4، ط: دار الفکر)
ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض وأن يكون الموهوب مقسوما إذا كان مما يحتمل القسمة وأن يكون الموهوب متميزا عن غير الموهوب.

الفتاوى التاتارخانیة: (فیما یجوز من الھبة وما لا یجوز، نوع منه، 431/14، ط: رشیدیه کوئته)
"و في المنتقى عن أبي يوسف: لايجوز للرجل أن يهب لامرأته و أن تهب لزوجها أو لأجنبي دارًا وهما فيها ساكنان، و كذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن يد الواهب ثابتة علي الدار".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 7 Oct 14, 2024

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.