سوال:
میرے ایک بھائی نے ایک فلیٹ خرید کر سن 2006 میں ایک (چھوٹی) بہن کے نام کیا، لیکن رہنے کے لیے دوسری (بڑی) بہن کو دیا جو اپنے میاں سے ان بن کی وجہ سے اپنے بچوں کے ساتھ ہمارے پاس واپس آگئی تھی، چھوٹی بہن اس وقت ایک اسکول ٹیچر تھی اور اپنے فلیٹ میں رہائش پذیر تھی، لیکن فلیٹ اسکے نام کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس کی تین بیٹیوں کی اولاد ہے اور بھائی کا اس وقت یہ کہنا تھا کہ یہ بہن جب نوکری سے ریٹائر ہوجائے گی اور بیٹیوں کی شادی ہوجائے گی تو یہ فلیٹ اس کے گزارے کا ذریعہ ہوگا جبکہ بڑی بہن جو کہ اس فلیٹ میں اپنے بچوں کے ساتھ اب تک رہائش پذیر ہے، بقول اس بھائی کے وہ تین بیٹوں کی ماں ہے اور اس کے بیٹے اس کے گذر بسر کا خیال کرینگے، کچھ عرصہ سے ان بھائی صاحب کا مطالبہ ہے کہ چھوٹی بہن فلیٹ کی رجسٹری واپس ان کے نام کردے، چھوٹی بہن پوچھنا چاہتی ہے کہ کیا بھائی تقریباً اٹھارہ برس بعد دیا ہوا ہدیہ واپس لے سکتا ہے؟
تنقیح:
محترم! اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ بھائی نے فلیٹ صرف نام کیا تھا یا مکمل تصرف کے ساتھ بہن کو قبضہ بھی دیا تھا؟ بایں معنی قبضہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ چھوٹی بہن کی اجازت اور رضامندی سے دوسری بہن رہ رہی تھی یا بھائی نے اپنی مرضی سے بڑی بہن کو رکھا تھا؟ اس وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے گا۔
جواب تنقیح:
فلیٹ خرید کر بھائی نے بڑی بہن اور اس کے بچوں کو رہنے کے لیے دیدیا اور رجسٹری چھوٹی بہن کے نام کروا کر کاغذات چھوٹی بہن کے حوالے کیے، بھائی خود امریکہ میں رہتے ہیں، بھائی کے کہنے پر چھوٹی بہن نے بڑی بہن کو رہنے کے لیے دیا۔
جواب: واضح رہے کہ اگر ہبہ (Gift) کرنے والے نے ہبہ کی ہوئی چیز میں اپنا تصرف باقی رکھا ہو تو اس چیز میں ہبہ کامل نہیں ہوتا ہے اور وہ چیز ہبہ کرنے والے کی ملکیت سے نہیں نکلتی ہے، لہذا پوچھی گئی صورت میں اگر چھوٹی بہن نے صرف بھائی کے کہنے پر نہیں بلکہ بھائی کے مشورہ (Advise) دینے کے بعد اپنے اختیار اور مکمل رضامندی سے بڑی بہن کو گھر رہنے کے لیے دیا ہو تو اس صورت میں فلیٹ چھوٹی بہن کا شمار ہوگا اور بھائی کے لیے فلیٹ واپس لینا جائز نہیں ہوگا۔ اور اگر چھوٹی بہن نے بھائی کے کہنے پر اپنے اختیار اور رضامندی کے بغیر بڑی بہن کو فلیٹ دیا ہو تو اس صورت میں چونکہ بھائی کا ہدیہ کرنے کے بعد تصرف پایا جارہا ہے، اس وجہ سے ہبہ تام نہیں ہوا اور یہ فلیٹ بھائی کا ہی شمار ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
المستدرك على الصحيحين للحاکم: (کتاب البیوع، رقم الحدیث: 2324، 60/2، ط: دار الكتب العلمية)
حدثنا أبو جعفر عبد الله بن إسماعيل بن إبراهيم بن المنصور، أمير المؤمنين ببغداد في دار الخلافة، ثنا عبد العزيز بن عبد الله الهاشمي، ثنا عبد الله بن جعفر الرقي، ثنا عبد الله بن المبارك، عن حماد، عن قتادة عن الحسن عن سمرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إذا كانت الهبة لذي رحم محرم لم يرجع فيها هذا حديث صحيح على شرط البخاري ولم يخرجاه "
شرح المجله: (کتاب الھبة، المادة: 866، 377/1، ط: رشيدية)
اذا وهب شخص شيئا لأصوله وفروعه أو لأخيه أو لأخته أو لاولادهما أو لأخ وأخت أبيه وأمه فليس له الرجوع بعد الهبة .
الدر المختار: (690/5، ط: دار الفکر)
(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی