عنوان: مفقود الخبر (لا پتہ شخص) کی میراث کا حکم(2140-No)

سوال:
محترم مفتی صاحب ! اگر ایک بچہ گم ہو جائے اور 8 سال تک نا ملے تو تقسیمِ وراثت کے وقت کیا کیا جائے ؟
اس بچے کا حصہ نکالا جائے یا نہیں؟ اگر نکالا جائے تو وہ کس کی ملکیت میں دیا جائے؟ وضاحت فرمائیں

جواب: مفقود یعنی وہ شخص جو لا پتہ ہوجائے اور اس کی زندگی و موت کا کوئی علم نہ ہو، میراث کے معاملے میں اس کی دو حیثیتیں ہیں: (1) مفقود (لاپتہ شخص) اپنے مال میں زندہ سمجھا جائے گا، لہٰذا کوئی دوسرا اس کا وارث نہیں ہوسکتا (2) دوسرے کے مال میں مردہ سمجھا جائے گا، لہٰذا وہ کسی کا وارث نہیں ہوگا، جب تک کہ اس کی موت حقیقتاً یا حکماً متعین نہ ہوجائے۔
حقیقتاً تو یہ کہ اس کا مردہ ہونا حقیقی ذرائع سے معلوم ہوجائے اور حکماً مفقود کو میت قرار دینے کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ اُس کو غائب ہوئے، اتنا لمبا عرصہ گزر جائے کہ اُس کے ہم عصر لوگوں میں کوئی باقی نہ رہے، اس سلسلہ میں قرآن و حدیث میں کوئی خاص مقدار یا خاص مدت ذکر نہیں ہے، فقہ حنفی میں اس سے متعلق سات اقوال ہیں۔
اس میں اصل ظاہر الروایہ ہے، یعنی “موت الاقران (ہم عمروں کی موت)” تاہم ایک آدمی کی عمر عادتاً کتنی ہوتی ہے اور اس کے اقران (ہم عمر) کب ختم ہوں گے، اس میں مشہور قول نوے سال کا ہے، اس کے علاوہ 100،80،70،60 اور 120سال کے اقوال بھی ہیں۔
تاہم چونکہ مذکورہ تقدیر کوئی منصوص نہیں ہے، اس لیے اگر کوئی قاضی یا جج اس قول کے خلاف فیصلہ کرے تو وہ نافذ ہونا چاہیے،جب کہ ایک معتد بہ مدت گزر چکی ہو اور جس سے غالب یہی ہو کہ اب مفقود زندہ نہیں ہوگا۔
اور دوسری صورت یہ ہے کہ عدالت میں مقدمہ درج کیا جائے، اور عدالت کی طرف سے تحقیق کرنے کے بعد، اس کی موت کا فیصلہ دے دیا جائے، اگرچہ زیادہ مدت نہ گزری ہو۔ 
اس ساری تمھید کے بعد صورت مسؤلہ میں چونکہ اس بچہ کی موت حقیقتاً یا حکماً متعین نہیں ہوئی ہے، اس لیے اس کا حصہ روکا جائے گا، اگر واپس آجاتا ہے تو اس کو دے دیا جائے گا اور اگر اس کی موت متعین ہوجائے تو جس وقت سے وہ غائب ہے، اس وقت سے اس کو مردہ تصور کیا جائے گا اور اپنے مورث کی میراث میں اس کا حق نہیں ہوگا، بلکہ جو حصہ روکا گیا تھا، وہ مورث کے ورثاء کی طرف بقدرِ حصص لوٹا دیا جائے گا۔ ہاں ! اگر اس بچہ کا ذاتی مال تھا، وہ اس کی موت متعین ہونے کی صورت میں اب اس کے شرعی ورثاء میں تقسیم کردیا جائے گا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار: (فرع ليس للقاضي تزويج أمة غائب و مجنون، 298/6)
يحكم بِمَوْتِهِ (فِي) حَقِّ(مَالِ غَيْرِهِ مِنْ حِينِ فَقْدِهِ فَيُرَدُّ الْمَوْقُوفُ لَهُ إلَى مَنْ يَرِثُ مُوَرِّثَهُ عِنْدَ مَوْتِهِ)

و فیہ ایضاً: (360/6)
يوقف قسطه إلى موت أقرانه في بلده على المذهب) لانه الغالب، واختار الزيلعي تفويضه للامام.

الهندية: (كتاب المفقود، 300/2، ط: دار الفکر)
وَلَا يَرِثُ الْمَفْقُودُ أَحَدًا مَاتَ فِي حَالِ فَقْدِهِ، وَمَعْنَى قَوْلِنَا ” لَا يَرِثُ الْمَفْقُودُ أَحَدًا ” أَنَّ نَصِيبَ الْمَفْقُودِ مِنْ الْمِيرَاثِ لَا يَصِيرُ مِلْكًا لِلْمَفْقُودِ، أَمَّا نَصِيبُ الْمَفْقُودِ مِنْ الْإِرْثِ فَيَتَوَقَّفُ، فَإِنْ ظَهَرَ حَيًّا عُلِمَ أَنَّهُ كَانَ مُسْتَحِقًّا، وَإِنْ لَمْ يَظْهَرْ حَيًّا حَتَّى بَلَغَ تِسْعِينَ سَنَةً فَمَا وُقِفَ لَهُ يُرَدُّ عَلَى وَرَثَةِ صَاحِبِ الْمَالِ يَوْمَ مَاتَ صَاحِبُ الْمَالِ، كَذَا فِي الْكَافِي۔

و فیھا ایضا: (الباب الثامن في المفقود و الأسیر، 456/6، ط: دار إحیاء التراث العربي)
وأما الموقوف من ترکۃ غیرہ، فإنہ یرد علی ورثۃ ذلک الغیر، ویقسم بینہم کأن المفقود لم یکن۔

الفقہ الاسلامی و ادلتہ: (7893/2، ط: دار الفکر)
وإن ثبت موته بالبينة الشرعية، اعتبر ميتاً من الوقت الذي يثبت أنه مات فيه، ويرثه ورثته من ذلك الوقت، وإن حكم القاضي بموته، اعتبر ميتاً من حين الحكم، ويرثه ورثته من تاريخ الحكم فقط

البحر الرائق: (ولا يرث المفقود من أحد مات أي قبل الحكم بموته، 178/5، ط: دار الکتاب الاسلامی)
قَوْلُهُ: وَحُكِمَ بِمَوْتِهِ بَعْدَ تِسْعِينَ سَنَةً) لِأَنَّهُ الْغَايَةُ فِي زَمَانِنَا وَالْحَيَاةُ بَعْدَهَا نَادِرٌ فَلَا عِبْرَةَ لِلنَّادِرِ، وَقَدْ وَقَعَ الِاخْتِلَافُ فِي هَذِهِ وَاخْتَلَفَ التَّرْجِيحُ، فَظَاهِرُ الرِّوَايَةِ وَهُوَ الْمَذْهَبُ أَنَّهُ مُقَدَّرٌ بِمَوْتِ الْأَقْرَانِ فِي السِّنِّ؛ لِأَنَّ مِنْ النَّوَادِرِ أَنْ يَعِيشَ الْإِنْسَانُ بَعْدَ مَوْتِ أَقْرَانِهِ فَلَا يَنْبَنِي الْحُكْمُ عَلَيْهِ فَإِذَا بَقِيَ مِنْهُمْ وَاحِدٌ لَا يُحْكَمُ بِمَوْتِهِ وَاخْتَلَفُوا فِي الْمُرَادِ بِمَوْتِ أَقْرَانِهِ فَقِيلَ مِنْ جَمِيعِ الْبِلَادِ، وَقِيلَ مِنْ بَلَدِهِ وَهُوَ الْأَصَحُّ، كَذَا فِي الذَّخِيرَةِ. وَاخْتَارَ الْمُؤَلِّفُ التَّقْدِيرَ بِالتِّسْعِينَ بِتَقْدِيمِ التَّاءِ عَلَى السِّينِ تَبَعًا لِابْنِ الْفَضْلِ وَهُوَ الْأَرْفَقُ كَمَا فِي الْهِدَايَةِ وَفِي الذَّخِيرَةِ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى، وَعَنْ أَبِي يُوسُفَ تَقْدِيرُهُ بِمِائَةِ سَنَةٍ وَاخْتَارَهُ أَبُو بَكْرِ بْنُ حَامِدٍ وَفِي رِوَايَةِ الْحَسَنِ عَنْ الْإِمَامِ بِمِائَةٍ وَعِشْرِينَ سَنَةً وَاخْتَارَهُ الْقُدُورِيُّ وَاخْتَارَ الْمُتَأَخِّرُونَ سِتِّينَ سَنَةً وَاخْتَارَ الْمُحَقِّقُ ابْنُ الْهُمَامِ سَبْعِينَ سَنَةً وَاخْتَارَ شَمْسُ الْأَئِمَّةِ أَنْ لَا يُقَدِّرَ بِشَيْءٍ؛ لِأَنَّهُ أَلْيَقُ بِطَرِيقِ النَّفَقَةِ؛ لِأَنَّ نَصْبَ الْمَقَادِيرِ بِالرَّأْيِ لَا تَكُونُ وَفِي الْهِدَايَةِ أَنَّهُ الْأَقْيَسُ وَفَوَّضَهُ بَعْضُهُمْ إلَى الْقَاضِي فَأَيُّ وَقْتٍ رَأَى الْمَصْلَحَةَ حَكَمَ بِمَوْتِهِ، قَالَ الشَّارِحُ وَهُوَ الْمُخْتَارُ.
اعلم أن ظاهر الرواية عن الإمام أنه لا يحكم بموته إلا بموت أقرانه في السن من أهل بلده وقيل: من جميع البلدان،قال خواهر زاده: والأول أصح، قال السرخسي: وهذا أليق بالفقه لأن نصب المقادير بالرأي لا يجوز غير أن الغالب أن الإنسان لا يعيش بعد أقرانه وأنت خبير بأن التفحص عن موت الأقران غير ممكن أو فيه حرج فعن هذا اختار المشايخ تقديره بالسن ثم اختلفوا فاختار المصنف أنه تسعون وفي (الهداية) وهو الأرفق)

النهر الفائق: (كتاب المفقود، 292/3، ط: دار الکتب العلمیة)
(قال في الكافي): و (الوجيز) وعليه الفتوى وروى الحسن مائة وعشرين سنة، وعن أبي يوسف مائة وفي (التتارخانية)معزيا إلى (الحاوي) وبه نأخذ وفيها عن (التهذيب) الفتوى على تقديره بثمانين واختار المتأخرون تقديره بستين وهذا الاختلاف إنما نشأ من اختلاف الرأي في أن الغالب هذا أو مطلقا، قال في (الفتح): والأحسن عندي التقدير بسبعين لخبر (أعمار أعمتي ما بين الستين إلى السبعين) وقيل: يفوض إلى رأي القاضي فأي وقت رأى المصلحة حكم بموته، قال الشارح: وهو المختار.

فتح القدير: (كتاب المفقود)
وَاخْتَارَ الشَّيْخُ الْإِمَامُ أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ حَامِدٍ أَنَّهَا تِسْعُونَ سَنَةً لِأَنَّ الْغَالِبَ فِي أَعْمَارِ أَهْلِ زَمَانِنَا هَذَا، وَهَذَا لَا يَصِحُّ إلَّا أَنْ يُقَالَ: إنَّ الْغَالِبَ فِي الْأَعْمَارِ الطِّوَالِ فِي أَهْلِ زَمَانِنَا أَنْ لَا تَزِيدَ عَلَى ذَلِكَ، نَعَمْ الْمُتَأَخِّرُونَ الَّذِينَ اخْتَارُوا سِتِّينَ بَنَوْهُ عَلَى الْغَالِبِ مِنْ الْأَعْمَارِ. وَالْحَاصِلُ أَنَّ الِاخْتِلَافَ مَا جَاءَ إلَّا مِنْ اخْتِلَافِ الرَّأْيِ فِي أَنَّ الْغَالِبَ هَذَا فِي الطُّولِ أَوْ مُطْلَقًا، فَلِذَا قَالَ شَمْسُ الْأَئِمَّةِ: الْأَلْيَقُ بِطَرِيقِ الْفِقْهِ أَنْ لَا يُقَدَّرَ بِشَيْءٍ لِأَنَّ نَصْبَ الْمَقَادِيرِ بِالرَّأْيِ لَا يَكُونُ وَهَذَا هُوَ قَوْلُ الْمُصَنِّفِ الْأَقْيَسُ إلَخْ،وَلَكِنْ نَقُولُ: إذَا لَمْ يَبْقَ أَحَدٌ مِنْ أَقْرَانِهِ يُحْكَمُ بِمَوْتِهِ اعْتِبَارًا لِحَالِهِ بِحَالِ نَظَائِره، وَهَذَا رُجُوعٌ إلَى ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ. قَالَ الْمُصَنِّفُ (وَالْأَرْفَقُ) أَيْ بِالنَّاسِ (أَنْ يُقَدَّرَ بِتِسْعِينَ) وَأَرْفَقُ مِنْهُ التَّقْدِيرُ بِسِتِّينَ. وَعِنْدِي الْأَحْسَنُ سَبْعُونَ لِقَوْلِهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – «أَعْمَارُ أُمَّتِي مَا بَيْنَ السِّتِّينَ إلَى السَّبْعِينَ» فَكَانَتْ الْمُنْتَهَى غَالِبًا.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 2829 Sep 22, 2019
mafqood ul khabar ( la pata shakas) ki meeras ka hukum / hukm, Ruling on the inheritance of a missing person

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.