عنوان: مورث کی زندگی میں انتقال ہونے والے وارث یا اس کے وارث کا مورث کی میراث میں حصہ (21407-No)

سوال: ایک خاتون مسمی کا انتقال ہوا، جن کے بارہ بچے تھے، جس میں سے سات (7) بیٹے اور پانچ (5) بیٹیاں تھیں، ابھی خاتون حیات ہی تھیں کہ ان کے ایک بیٹے اور ایک بیٹی کا انتقال ہوگیا، بعد ازاں خاتون کا انتقال ہوا، انتقال کے وقت مرحومہ کے چار (4) بیٹے اور چار (4) بیٹیاں تھیں۔ سوال یہ ہے کہ جو بچے اپنی والدہ محترمہ کے انتقال سے پہلے وفات پاگئے، والدہ کی وراثت میں شرعا ان کا حق ہے یا ان کے بچے مطالبہ کر سکتے ہیں؟ شریعت مطہرہ کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔ مستفتى فاروق بائنا

جواب: واضح رہے کہ مورث کی زندگی میں جس وارث کا انتقال ہو جائے، اس کا مورث کے ترکہ میں کوئی حصہ نہیں ہوتا ہے، نیز مرحوم کے بیٹوں کے موجود ہوتے ہوئے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کا اپنے دادا دادی اور نانا نانی کی میراث میں حصہ نہیں ہوتا ہے، لہذا جس بیٹے اور بیٹی کا والدہ کی زندگی میں انتقال ہوگیا تھا، ان کا اپنی والدہ کی میراث میں اور ان کے بچوں کا اپنی دادی/نانی کی میراث میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

رد المحتار: (758/6، ط: دار الفکر)
وشروطه ثلاثة: موت مورث حقيقةً أو حكمًا كمفقود أو تقديرًا كجنين فيه غرة، ووجود وارثه عند موته حيًّا حقيقةً أو تقديرًا كالحمل ، والعلم بجهل إرثه.

السراجی: (ص: 36، ط: مکتبة البشرى)
يرجحون بقرب الدرجة، أعني أولاهم بالميراث جزء الميت أي البنون ثم بنوهم وإن سفلوا، ثم أصله أي الأب ثم الجد أي أب الأب وإن علا، ثم جزء أبيه أي الإخوة۔۔۔الخ

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 20 Oct 19, 2024

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.