سوال:
السلام عليکم، جناب مفتی صاحب ! ميں نے ايک فريزر بيچنے کے ليے دکاندار کو ديا، ميں نے اس دکان دار کو کہا کہ یہ کتنے روپے میں بک جائے گا؟ تو اس نے کہا کہ 17000 يا 18000 میں بک جائے گا، تو ميں نے اس سے کہا کہ 14000 آئے يا اوپر جتنے روپے آئے، آپ کو 5% نفع طے ہے، 14000 سے کم نہيں بیچنا۔
اب 17 ہزار میں بک گیا،اب وہ کہتا ہے کہ 1000 روپے ميرا نفع ہے اور 16000 آپ لے لو، اب کيا کرنا چاہئے
14000 لے لوں يا کيا کروں؟ اور یہ بھی بتادیں کہ کیا اس طرح معاملہ کرنا درست ہے؟
جواب: کسی کو اپنی کوئی چیز بکوانے کا وکیل بنانا اور اس پر حاصل شدہ نفع میں اس وکیل کا فیصد کے اعتبار سے کوئی کمیشن طے کرنا جائز ہے، لہذا سوال میں مذکورصورت کے مطابق حاصل ہونے والے نفع میں سے پانچ فیصد وکیل کو ملے گا اور باقی نفع مؤکل (اصل مالک) کا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (باب الاجارۃ الفاسدۃ٬ مطلب فی اُجرۃ الدلال، 63/6)
"وفی الدّلال والسمسار یجب اجر المثل وما تواضعوا علیہ ان فی کل عشرۃ دنانیر کذا فذِاک حرام علیہم۔ وفی الحاوی سئل محمد بن سلمۃ عن اُجرۃ السمسار ، فقال ارجوا انہ لابأس بہٖ وان کان فی الاصل فاسد الکثرۃ التعامل وکثیر من ھٰذا غیر جائز ، فجوزوہ لحاجۃ الناس الیہ کدخول الحمام".
خلاصۃ الفتاویٰ: (کتاب الاجارات، جنس اٰخر فی المتفرقات، 116/3)
"وفی الاصل اجرۃ السمسار والمغاری والحمامی والصکاک ومالا تقدیر فیہ للوقت ولامقدار لما یستحق بالعقد لکن للناس فیہ حاجۃ جاز وان کان فی الاصل فاسدًا".
الاشباہ و النظائر: (کتاب الاجارات، 130/3)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی