سوال:
مفتی صاحب ! میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے،ان کی میراث تقسیم کرنی ہے، والد کے ورثاء میں پانچ بیٹے،چھ بیٹیاں،اور بیوی ہیں، والدہ اور ایک بہن چاہ رہی ہیں کہ وہ اپنا حصہ اپنے دو بیٹوں کو دیدیں، جن کے ساتھ وہ رہرہی ہیں، کیا وہ ایسا کرسکتی ہیں؟ کیا ان کے اس فیصلے پر کسی کو اعتراض کا حق حاصل ہے؟
جواب: مرحوم کے ترکہ میں سے والدہ اور بہن کو جو حصہ ملے گا، وہ اپنے حصہ پر قبضہ کرکے اپنی زندگی میں جس کو دینا چاہیں، دے سکتی ہیں، کسی وارث کو اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے۔ البتہ والد مرحوم کی میراث تقسیم ہونے سے پہلے ایسا کرنا درست نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الأشباہ و النظائر: (ما یقبل الاسقاط من الحقوق و ما لا یقبلہ، ص: 309، ط: قدیمی)
"لَوْ قَالَ الْوَارِثُ: تَرَكْتُ حَقِّي لَمْ يَبْطُلْ حَقُّهُ؛ إذْ الْمِلْكُ لَا يَبْطُلُ بِالتَّرْك".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی