عنوان: وراثت کی تقسیم میں پہلے قرضہ دینا ضروری ہے، چاہے وہ مہر ہی کیوں نہ ہو۔(2212-No)

سوال: السلام علیکم، کیا فرماتے ہیں مفتی صاحب اس بارے میں کہ والدین ساڑھے چھ مرلہ مکان کے بحصہ برابر مالکان ہیں، ان کے دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں، دوران حیات والد اپنے پہلے بیٹے کی شادی میں اپنی بہو کو اسی مکان میں (1/4) حصہ یعنی اپنا آدھا حصہ اپنی بہو کو بوقت نکاح حق مہر میں دے دیتا ہے،جبکہ والدہ اپنے دوسرے بیٹے کی شادی میں اپنی بہو کو اسی مکان میں سے (1/4) حصہ یعنی اپنا آدھا حصہ اپنی بہو کو بوقت نکاح حق مہر میں دے دیتی ہے،جبکہ بعد از رخصتی دونوں بیٹے مع بیگمات اپنے والدین کے ساتھ ہی رہائش پذیر ہیں، اب دونوں والدین فوت ہوچکے ہیں، جبکہ بیٹے بمع اہل وعیال اسی گھر میں رہائش پذیر ہیں، تو صورت مسؤلہ میں والدین کی وراثت کی تقسیم کا طریقہ کار کیا ہوگا؟
1) آیا بہوؤئیں اپنے اپنے حصے کا مطالبہ کر سکتی ہیں؟
2) اگر کرسکتی ہیں تو کیا بقیہ نصف مکان تمام بچوں میں بم بیٹیوں کے شرعی قانون وراثت کے تحت تقسیم ہوگا؟
3) اگر بہوؤئیں اپنے اپنے حصہ سے محروم ہوگئی ہیں تو حق مہر میں والدین کی طرف سے جو حصص دیے گئے ہیں، اس کے حصول کا کیا طریقہ ہے؟
4) آیا حق مہر میں دیے گئے حصص تمام ورثاءمتوفیان میں قانون وراثت کے تحت تقسیم ہوں گے؟
5) اگر بہوؤئیں اپنے اپنے علیحدہ گھروں میں رہ رہی تھی تو کیا پھر بھی وہ اپنے اپنے حصے کا مطالبہ کرسکتی ہیں اور بیٹے بہنوں کے ساتھ بقیہ نصف مکان میں بمطابق شرعی حصص حقدار ہونگے؟
مہربانی کرکے رہنمائی فرمادیں
جزاک اللہ خیراً

جواب: صورت مسئولہ میں دونوں بہوؤں کو مکان کا جو حصہ دیا گیا ہے، وہ اس حصہ کی شرعاً مالکہ ہیں، کیونکہ مہر عورت کا وہ لازمی حق ہے جو نکاح کی وجہ سے شوہر پر لازم ہوتا ہے، لہذا مہر میں مکان کے دیے گئے حصے کو میت کا ترکہ شمار نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی وراثت میں تقسیم ہوگا اور اس حصے کے ادا کرنے کے بعد جو جائیداد باقی رہ جائے، اس کو شرعی ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔
اس تفصیل کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب ذکر کیے جاتے ہیں:
1۔دونوں بہوؤیں اپنے حصہ کا مطالبہ کرسکتی ہیں۔
2۔ جی ہاں! بقیہ جائیداد ورثہ میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کی جائے گی۔
3۔ دونوں بہوؤں کا حصہ جن ورثہ کے قبضے میں ہے، وہ اس کو واپس کریں گے۔
4۔ مہر میں دیا گیا حصہ اس عورت کا ہے، جس کو دیا گیاہے، دوسرے ورثہ کے درمیان اسے تقسیم نہیں کیا جائےگا۔
5۔جی ہاں! دونوں بہوؤیں اپنے حق مہر کا مطالبہ کرسکتی ہیں اور بیٹے باقی جائیداد میں بیٹیوں یعنی اپنے بہنوں کے ساتھ شرعاً شریک ہونگے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الھندیۃ: (447/6، ط: دار الفکر)
التركة تتعلق بها حقوق أربعة: جهاز الميت ودفنه والدين والوصية والميراث. فيبدأ أولا بجهازه وكفنه وما يحتاج إليه في دفنه بالمعروف، كذا في المحيط۔۔۔ثم بالدين وأنه لا يخلو إما أن يكون الكل ديون الصحة أو ديون المرض أو كان البعض دين الصحة والبعض دين المرض۔۔۔ثم تنفذ وصاياه من ثلث ما يبقى بعد الكفن والدين۔۔۔ثم يقسم الباقي بين الورثة على سهام الميراث

و فیھا ایضاً: (303/1- 304، ط: دار الکتب العلمیة)
والمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراء

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 750 Oct 03, 2019
wirasat ki taqseem me / mein pehle / pehley qarza dena zarori he / hey,chahey wo meher hi kio na ho., In the distribution of inheritance, it is necessary to give loan first, even if it is a meher / dowry.

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.