سوال:
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ، اللہ پاک سے امید ہے کہ آپ سب حضرات خیریت سے ہوں گے اور اللہ پاک آپ لوگوں کا سایہ ہمارے سروں پر قائم اور دائم رکھے، حضرات کرام سے یہ معلوم کرنا ہے کہ ایک صاحب سے یہ سنا ہے کہ مسجد میں اپنے لیے سوال کرنا گناہ صغیرہ میں آتا ہے اور اس کو کچھ دینا گناہ کبیرہ میں آتا ہے، اس بارے میں رہنمائی چاہیئے۔ جزاک اللہ خیرا
جواب: (1) واضح رہے کہ بلا ضرورت سوال کرنا ناجائز اور حرام ہے، چاہے مسجد میں ہو یا مسجد کےباہر ہو، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص بلاضرورت مانگتا ہے، قیامت کے دن اس کا یہ مانگنا، اس کے چہرے پر زخم بن کر ظاہر ہوگا، پس ایسے شخص کو بھیک دینا مکروہ ہے،چاہے مسجد میں ہو یا مسجد سے باہر ہو۔
(2) اگر کوئی شخص انتہائی مجبور ہو اور اس کے پاس ایک دن کا بقدر ضرورت راشن موجود نہ ہو، تو اس کے لیے درج ذیل شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے مسجد میں سوال کرنے کی گنجائش ہے:
(1) اس سے کسی نمازی کی نماز میں خلل نہ ہو۔ (2) بھیک مانگتے وقت کسی کو تکلیف نہ دی جائے، مثلاً: گردن پھلانگنا وغیرہ (3) مسجد میں شور وشغب نہ کیا جائے۔
البتہ بہتر یہی ہے کہ یہ شخص مسجد کے باہر سوال کرے۔
ایسے مجبور شخص کو مسجد میں پیسے دینا اگرچہ گناہ تو نہیں، پھر بھی بہتر یہی ہے کہ پیسے مسجد سے باہر جا کر دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن ابی داؤد: (باب من یعطی من الصدقۃ، و حد الغنی، 189/2، ط: دار ابن حزم)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ سَأَلَ وَلَهُ مَا يُغْنِيهِ جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ خُمُوشٌ أَوْ خُدُوشٌ أَوْ كُدُوحٌ فِي وَجْهِهِ ۔
الدر المختار مع رد المحتار: (باب الجمعۃ، مطلب في الصدقۃ علی سوال المسجد، 42/3، ط: دار عالم الکتب)
"ويكره التخطي للسؤال بكل حال".
(قوله: ويكره التخطي للسؤال إلخ) قال في النهر: والمختار أن السائل إن كان لايمر بين يدي المصلي ولايتخطى الرقاب ولايسأل إلحافاً بل لأمر لا بد منه فلا بأس بالسؤال والإعطاء اه ومثله في البزازية. وفيها: ولايجوز الإعطاء إذا لم يكونوا على تلك الصفة المذكورة. قال الإمام أبو نصر العياضي: أرجو أن يغفر الله - تعالى - لمن يخرجهم من المسجد. وعن الإمام خلف بن أيوب: لو كنت قاضياً لم أقبل شهادة من يتصدق عليهم. اه. وسيأتي في باب المصرف أنه لايحل أن يسأل شيئاً من له قوت يومه بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب ويأثم معطيه إن علم بحالته لإعانته على المحرم"
و فیہ ایضا: (باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، 433/2، ط: دار عالم الکتب)
’’ویحرم فیہ السوال و یکرہ الاعطاء مطلقا‘‘۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی