سوال:
بارہ ربیع الاول کو پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے گھروں سے مختلف کھانے کی چیزیں آتی ہیں تو ان چیزوں کےکھانے سے متعلق کیا حکم ہے؟
جواب: بارہ ربیع الاول کو کھانا تقسیم کرنے کو لازم سمجھنا اور اس کا التزام کرنا اور اس کو دین کا جزو بنانا بدعت ہے، اس بدعت اور التزام کو ختم کرنے کے لئے ایسا کھانا قبول نہیں کرنا چاہیے، البتہ اگر اس دن کہیں سے کھانا آ گیا اور اس کو کھا لیا تو انشاء اللہ گناہ نہ ہوگا، البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ اگر یہ کھانا کسی غیر اللہ کے نام پر یا غیر اللہ کے تقرب حاصل کرنے کے لئے دیا گیا ہو تو اس صورت میں کسی مسلمان کیلئے یہ کھانا حلال نہیں ہے، اب چونکہ یہ پتہ لگانا مشکل ہے کہ کس نے کس نیت سے دیا ہے، کیوں کہ عوام میں جہالت عام ہے اور صحیح عقائد کے علم کا فقدان ہے، اس لیے ایسے کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الآیۃ: 173)
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيْرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ۔۔۔۔الخ
صحیح البخاری: (184/3، ط: دار طوق النجاۃ)
عن عائشة رضي الله عنها، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أحدث في أمرنا هذا ما ليس فيه، فهو رد» رواه عبد الله بن جعفر المخرمي، وعبد الواحد بن أبي عون، عن سعد بن إبراهيم
الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ: (21/8، ط: دار السلاسل)
أطلق أصحاب الاتجاه الأول البدعة على كل حادث لم يوجد في الكتاب والسنة، سواء أكان في العبادات أم العادات، وسواء أكان مذموما أم غير مذموم.
التفسیر الکبیر: (23/3، ط: دار الفکر)
والحجۃ فیہ انھم اذا ذبحوا علی اسم المسیح فقد اھلو بہ لغیر اللہ فواجب ان یحرم وروی عن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ قال اذا سمعتم الیھود والنصاری یھلون لغیر اللہ فلا تاکلوا اھ۔
رد المحتار: (439/2، ط: دار الفکر)
واعلم أن النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام وما يؤخذ من الدراهم والشمع والزيت ونحوها إلى ضرائح الأولياء الكرام تقربا إليهم فهو بالإجماع باطل وحرام ما لم يقصدوا صرفها لفقراء الأنام وقد ابتلي الناس بذلك،
ولا سيما في هذه الأعصار وقد بسطه العلامة قاسم في شرح درر البحار، ولقد قال الإمام محمد: لو كانت العوام عبيدي لأعتقتهم وأسقطت ولائي وذلك لأنهم لا يهتدون فالكل بهم يتغيرون.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی