سوال:
میں ایک گرافک ڈیزائنر ہوں اور NFT بنانے، خریدنے اور بیچنے کا کام کرنا چاہتی ہوں۔ این ایف ٹی (NFT) کا مطلب نان فنجیبل ٹوکن ہے، ڈیجیٹل ورلڈ میں جب بھی بندہ کوئی چیز بیچتا ہے تو وہ اس چیز پر ایک بلاک چین کوڈ لگا دیتا ہے، جس کی وجہ سےاس کے ملکیتی حقوق اس شخص کے نام ہوجاتے ہیں، پھر جب وہ اُسے بیچتا ہے تو بلاک چین میں وہ خریدار کا ایڈریس ڈال دیتا ہے، جس سے اس چیز کے ملکیتی حقوق خریدار کے نام منتقل ہوجاتے ہیں، NFT ڈیجیٹل ورلڈ میں کوئی بھی چیز ہوسکتی ہے، کوئی تصویر پینٹنگ، کوئی ٹویٹ، کوئی ویڈیو، کسی گیم کے کسی کیریکٹر کے کپڑے، اس کے ہتھیار، کسی گیم میں موجود پینٹنگ یا دیوار، غرض ڈیجیٹل ورلڈ میں موجود کوئی بھی چیز NFT ہوسکتی ہے، وہ چیز قابلِ استعمال بھی ہوسکتی ہے اور محض نام، شہرت اور دکھاوے کی چیز بھی ہوسکتی ہے، مثلاً: ایک شخص نے تقریباً چالیس ملین ڈالر میں ٹویٹر میں ہونے والا پہلا ٹویٹ خرید لیا تھا۔
این ایف ٹی(NFT) میں خریدی گئی چیز کو آپ اپنی مرضی سے کہیں بھی استعمال کرسکتے ہیں، مثلاً: آپ نے پب جی گیم میں موجود کسی کیریکٹر کے آؤٹ فٹ یا ہتھیار خرید لئے تو آپ اسے فری فائرگیم میں استعمال کرسکتے ہیں، اسی طرح آپ نے "الکرم" کے کسی کپڑے کا ڈیزائن خرید لیا تو آپ اسے اپنی کسی بھی ڈیجیٹل میٹنگ، میٹامیٹنگ میں استعمال کرسکتے ہیں، کمپنی اس کو رپورٹ کرنے یا اس پر کلیم کرنے کا کوئی حق نہیں رکھے گی۔
بعض لوگ NFT میں رائیلٹی کو بھی شامل کرلیتے ہیں، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب بھی وہ چیز آگے بکے گی تو اس میں فروخت کنندہ کے ساتھ ساتھ رائیلٹی کو بھی اس کا کچھ پرسنٹیج ملے گا، یہ پرسنٹیج فِکس ہوگا اور وہ اماؤنٹ ڈیجیٹل کرنسی کی شکل میں آپ کے ڈیجیٹل اکاونٹ میں جمع ہوجائے گی، جسے آپ بعد میں پیپر کرنسی (مروّجہ ڈالر، روپے، درہم اور دینار وغیرہ) میں کنورٹ کرکے اپنے بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرکے نکال سکتے ہیں۔
میرے کام کی تفصیل یہ ہے کہ سب سے پہلے میں گرافک ڈیزائننگ کرکے کوئی تصویر بناتی ہوں اور اس پر بلاک چین کوڈ لگا دیتی ہوں، پھر اسے ڈیجیٹل مارکیٹ میں بیچتی ہوں تو اس کے عوض میں مجھے ڈیجیٹل کرنسی ملتی ہے، وہ کرنسی میرے ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہوجاتی ہے، (ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں ایک تو میٹا اکاؤنٹ ہے، اس کے علاوہ آپ جس ڈیجیٹل کرنسی میں لین دین کرتے ہیں، اس کا الگ اکاؤنٹ بھی بناسکتے ہیں) پھر میں اسے پیپر کرنسی (جیسے روپے ڈالر وغیرہ) میں کنورٹ کرلیتی ہوں اور اسے اپنے بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرکے بینک چیک یا اے ٹی ایم سے نکال لیتی ہوں۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا NFT بنانا اور خرید و فروخت کرنا جائز ہے؟
جواب: ہماری معلومات کی حد تک نان فنجیبل ٹوکن (Non Fungible Token) ایک ڈیجیٹل ٹوکن یا سرٹیفیکیٹ ہے جو خاص قسم کے ڈیجیٹل اثاثے، حق، منفعت یا لائسنس کی نمائندگی کرتا ہے، اور عموماً اس کے ذریعے جاندار اور غیر جاندار کی تصاویر، میوزک، ویڈیوز، ڈیزائننگ، گیمز اور پینٹنگ/آرٹ وغیرہ یا ان کے ملکیتی حقوق فروخت کیے جاتے ہیں، اور یہ خرید و فروخت عموماً ڈیجیٹل کرنسی کے ذریعے کی جاتی ہے۔
شرعی طور پر کسی چیز کی خرید وفروخت کے جائز ہونے کیلئے ضروری ہے کہ وہ اثاثہ جس کی NTF نمائندگی کر رہا ہے، وہ شرعاً مال ہو، اس کو دیکھنا سننا یا استعمال کرنا جائز ہو، نیز بیچنے کے وقت وہ اثاثہ بیچنے والی کی ملکیت اور قبضہ میں ہو، نیز بیچتے وقت اس کے تمام حقوق خریدار کی طرف منتقل کیے جائیں جن کا منتقل کرنا شرعاً ضروری ہے، اسی طرح اگر اجارہ کا معاملہ کیاجائے تو اس صورت میں منفعت مقصودہ کا پایا جانا ضروری ہے، لیکن NFT کے ذریعے خرید و فروخت کے معاملہ میں بہت سی شرائط مفقود ہونے کہ وجہ سے درج ذیل مفاسد پائے جاتے ہیں:
1) خواتین کی تصاویر /ویڈیوز اور میوزک کی خرید و فروخت کی جاتی ہے، جوکہ جائز نہیں۔
2) بسا اوقات یہاں کسی اثاثہ کی حقیقی خرید و فروخت مقصود نہیں ہوتی، بلکہ اس ڈیجیٹل ٹوکن کے ذریعے ملٹی لیول مارکیٹنگ کی جاتی ہے کہ جس نے پہلی دفعہ کوئی چیز بنائی، اس پلیٹ فارم کے ذریعے جتنی دفعہ کسی خریدار کو ڈیجیٹل شکل میں فروخت ہوگی تو اس پہلے شخص کو ایک خاص تناسب کے حساب سے کمیشن ملتا ہے جو کہ شرعاً درست نہیں ہے۔
3) اولاً تو بہت سی چیزوں میں حقیقی خرید و فروخت مقصود ہی نہیں ہوتی، (بعض دفعہ محض بے فائدہ چیز کی مصنوعی طور پر قیمت بڑھا چڑھاکر پیش کی جاتی ہے)، اور جہاں خرید و فروخت ہوتی ہے، اس میں تمام حقوق خریدار کو منتقل نہیں کیے جاتے، جن کا منتقل کرنا شرعاً ضروری ہے۔
4) یہاں خرید وفروخت ڈیجیٹل کرنسی کے ذریعے ہوتی ہے جو کہ بذات خود کئی مفاسد پر مشتمل ہے، جس کی بناء پر بہت سے علماء کرام اس کے ذریعے خرید وفروخت سے منع کرتے ہیں۔
لہذا مذکورہ بالا مفاسد کی موجودگی کی صورت میں سوال میں ذکردہ کردہ پلیٹ فارم کے ذریعے پیسے کمانے کا معاملہ درست نہیں ہوگا، اس سے اجتناب ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
السنن الكبري للبيهقي: (95/8، ط: دار الفكر)
عن حَكِيمِ بْن حِزَامٍ قَالَ قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ الرَّجُلُ يَطْلُبُ مِنِّى الْبَيْعَ وَلَيْسَ عِنْدِى أَفَأَبِيعُهُ لَهُ؟ فَقَال رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- :« لا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ.
بدائع الصنائع: (35/7، کتاب البیوع؛ فصل وأما الذی یرجع الی المعقود علیه)
ومنها وهو شرطُ انعقاد البيع للبائع أَنْ يكون مملوكًا لِلبَائع عندالبيع فإِن لم يكن لا ينعقد... وَهذا بَيعُ ما ليس عِندَه وَنهَى رسول اللَّهِ صلى اللَّهُ عليه وسلم عن بيع ما ليس عند الْإِنسان...(ومنها) القبض في بيع المشتري المنقول فلا يصح بيعه قبل القبض؛ لما روي أن النبي - صلى الله عليه وسلم - «نهى عن بيع ما لم يقبض۔
الدر المختار: (502/4، ط: دار الفکر)
وشرعا: (مبادلة شيء مرغوب فيه بمثله) خرج غير المرغوب كتراب وميتة ودم على وجه) *مفيد. (مخصوص) أي بإيجاب أو تعاط۔۔۔الخ
وفیه أیضا: (501/4، ط: دار الفکر)
المراد بالمال ما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة، والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم، والتقوم يثبت بها و بإباحة الانتفاع به شرعا
الدر المختار: (4/6، ط: دار الفکر)
"(هي) لغة: اسم للأجرة وهو ما يستحق على عمل الخير ولذا يدعى به، يقال أعظم الله أجرك. وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثيابا أو أواني ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو دارا لا ليسكنها أو عبدا أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين بزازية"
کذا فی فتاوی جامعہ بنوری تاؤن: رقم الفتوی؛ 144307100226)
کذا فی جریدة "البلاغ":(ص26، الشهر: ذی الحج، 1444ھ، الناشر: جامعة دارالعلوم كراتشى)
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی