سوال:
میرا سوال یہ ہے کہ ایک خاتون کے شوہر کا جنوری سن دو ہزار دو میں دل کا دورہ پڑنے کے باعث انتقال ہوگیا تھا، شوہر کے انتقال کے وقت ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی، ان چاروں میں سے جو دو بڑے بیٹے تھے وہ پیدائشی سے ہی جسمانی طور پر معذور ہیں، عدت کے بعد خاتون نے تقریباً بارہ سال بے انتہا مشقت اُٹھاکر مسلسل نوکری کرکے اپنے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری نبھائی اور چاروں کو بہترین تعلیم دلوائی، بچوں کے والد کے نام ایک چھوٹا فلیٹ تھا جس میں وہ پہلے رہتی تھیں، وہ چھوٹا فلیٹ خاتون پہلے ہی بیٹی کے نام کرنے کا اعلان کرچکی تھیں اور اس کی کاغذی کارروائی چل رہی تھی۔
سن دو ہزار انیس میں خاتون نے ایک صاحب سے دوسری شادی کرلی، اگلے سال جنوری دو ہزار بیس میں خاتون کو کینسر کا مرض لاحق ہوگیا، خاتون کا علاج چلتا رہا مگر افاقہ نہیں ہوا اور جولائی دو ہزار اکیس میں خاتون اللہ کو پیاری ہوگئیں۔
ان کے انتقال کے وقت ان کے والد اور والدہ کے علاوہ چار بہنیں اور چار بھائی بھی الحمدللہ حیات تھے اور ابھی بھی حیات ہیں
اس کے علاوہ چاروں بچے اور وہ دوسرے شوہر بھی تھے۔ جس فلیٹ میں بچے رہتے تھے، اس کے علاوہ ان بچوں کی کوئی رہائش گاہ نہیں تھی تو اگر اس فلیٹ کو بیچ کر چاروں بچوں، دوسرے شوہر اور باقی وُرثاء میں تقسیم کی جاتی تو اس کے بعد بچوں کی رہائش ختم ہوجاتی کیونکہ تقسیم کرنے پر اگر دس دس لاکھ روپے بھی ان بچوں کو ملتے تو وہ ان پیسوں سے رہائش کا انتظام نہیں کرسکتے تھے اور چار میں سے دو بچے جسمانی طور پر معذور بھی ہیں، پھر وہ جو دوسرے شوہر تھے ان کو دینی معاملات کی سمجھ بوجھ تھی تو انہوں نے خاتون کی وفات کے ایک ہفتے بعد ہی اپنے حصے سے دستبرداری کا اعلان کردیا تھا اور ان کا خیال تھا کہ چونکہ شرعی طور پر کسی چیز کے عوض دستبردار ہونا ہوتا ہے تو اس وجہ سے انہوں نے خاتون کا موبائل فون اور کُچھ کپڑے اپنے پاس رکھ لیے تھے اور کہا تھا کہ وہ اس کے عوض اپنے باقی سب حصے سے دستبردار ہوتے ہیں تاکہ بچوں کو بعد میں شرعی طور پر ان کی طرف سے کوئی پریشانی نہ ہو، اپنے حصے سے دستبرداری کا اعلان بھی انہوں نے ایک مرتبہ چاروں بچوں اور ان کی نانی کی موجودگی میں اور دوسری مرتبہ چاروں بچوں کی موجودگی میں کیا تھا، لہٰذا وہ بچے تب سے اسی فلیٹ میں رہ رہے ہیں، دوسرے شوہر کے دستبردار ہونے کے بعد بچوں کو اطمینان تھا اور اب ان خاتون کے دوسرے شوہر نے آکر فلیٹ میں سے اپنے حصے کا مطالبہ کردیا ہے، ان صاحب نے آج تک کبھی بھی ان بچوں پر یا اس فلیٹ پر ایک پیسےکا خرچہ نہیں کیا، اس فلیٹ کے علاوہ ان معذور بچوں کی کوئی اور رہائشگاہ نہیں ہے، اس ساری صورتحال کو مدنظر رکھ کر براہ مہربانی فتوٰی دے دیجیے۔
جواب: واضح رہے کہ ترکہ میں سے کوئی چیز لے کر صلح کرکے اپنے باقی حصہ سے دست بردار ہوجانا شریعت کی اصطلاح میں "تخارج" کہلاتا ہے، اس طرح دستبردار ہونے والے کا باقی ترکہ میں سے حصہ ختم ہوجاتا ہے اور دستبردار ہونے کے بعد دوبارہ ترکہ کا مطالبہ نہیں کرسکتا ہے۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں اگر مرحومہ کے دوسرے شوہر اوپر ذکر کیے گئے طریقہ کے مطابق دستبردار ہوئے تھے تو اب ان کا مرحومہ کی میراث میں کوئی حصہ نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
تكملة رد المحتار: (8/ 116، ط: دار الفکر)
الارث جبري لا يسقط بالاسقاط
الأشباہ و النظائر: (ما یقبل الاسقاط من الحقوق، ص: 309، ط: قدیمی)
"لَوْ قَالَ الْوَارِثُ: تَرَكْتُ حَقِّي لَمْ يَبْطُلْ حَقُّهُ؛ إذْ الْمِلْكُ لَا يَبْطُلُ بِالتَّرْك".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی