سوال:
مفتی صاحب! ایک شخص نے نذر مانی کہ میرا فلاں کام ہو گیا تو میں فقراء پر ایک کروڑ روپے صدقہ کروں گا، اور وہ کام بھی ہو گیا لیکن اس شخص کی ایک کروڑ روپے صدقہ کرنے کی استطاعت نہیں تھی اور نہ ہی اب ہے تو کیا حکم ہوگا؟ رہنمائی فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ اگر صدقے کی نذر ماننے والا شخص اپنی موجودہ ملکیت سے زیادہ رقم کی نذر مان لے تو اس پر اپنی ملکیت کی حد تک نذر پوری کرنا واجب ہوتا ہے ، لہذا جو شخص اس قدر مال کا مالک نہ ہو تو اضافی رقم کی نذر منعقد نہ ہوگی ۔ اس تمہید کی روشنی میں آپ کی صورت کا حکم یہ ہے کہ اگر ایک کروڑ کی نذر ماننے والا نذر مانتے وقت اس قدر مال کا مالک نہیں تھا تو ایک کروڑ کی نذر منعقد نہیں ہوئی ، بلکہ جس قدر اس کی ملکیت میں مال تھا بس اس قدر ہی نذر منعقد ہوئی ہے ، اور کام ہو جانے کے بعد اسی قدر صدقہ کرنا واجب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع الشامي(کتاب الأیمان ،742،741/3،ط: سعید)
(ﻧﺬﺭ ﺃﻥ ﻳﺘﺼﺪﻕ ﺑﺄﻟﻒ ﻣﻦ ﻣﺎﻟﻪ ﻭﻫﻮ ﻳﻤﻠﻚ ﺩﻭﻧﻬﺎ ﻟﺰﻣﻪ) ﻣﺎ ﻳﻤﻠﻚ ﻣﻨﻬﺎ (ﻓﻘﻂ) ﻫﻮ اﻟﻤﺨﺘﺎﺭ ﻷﻧﻪ ﻓﻴﻤﺎ ﻟﻢ ﻳﻤﻠﻚ ﻟﻢ ﻳﻮﺟﺪ اﻝﻧﺬﺭ ﻓﻲ اﻟﻤﻠﻚ ﻭﻻ ﻣﻀﺎﻓﺎ ﺇﻟﻰ ﺳﺒﺒﻪ ﻓﻠﻢ ﻳﺼﺢ…
(ﻗﻮﻟﻪ ﻟﻢ ﻳﻮﺟﺪ ﺇﻟﺦ) ﺃﻱ ﻭﺷﺮﻁ ﺻﺤﺔ اﻟﻨﺬﺭ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ اﻟﻤﻨﺬﻭﺭ ﻣﻠﻜﺎ ﻟﻠﻨﺎﺫﺭ.
فتاوى هندية:(کتاب الأیمان ،152،151/3،ط: رشیدیه)
اﻟﺘﺰﻡ ﺑﺎﻟﻨﺬﺭ ﺑﺄﻛﺜﺮ ﻣﻤﺎ ﻳﻤﻠﻚ ﻟﺰﻣﻪ ﻣﺎ ﻳﻤﻠﻚ ﻓﻲ اﻟﻤﺨﺘﺎﺭ ﻛﻤﻦ ﻗﺎﻝ: ﺇﻥ ﻓﻌﻠﺖ ﻛﺬا ﻓﻌﻠﻴﻪ ﺃﻟﻒ ﺻﺪﻗﺔ ﻭﻟﻴﺲ ﻟﻪ ﺇﻻ ﻣﺎﺋﺔ ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﻮﺟﻴﺰ ﻟﻠﻜﺮﺩﺭﻱ. ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﻋﻨﺪﻩ ﻋﺮﻭﺽ ﺃﻭ ﺧﺎﺩﻡ ﻳﺴﺎﻭﻱ ﻣﺎﺋﺔ ﻓﺈﻧﻪ ﻳﺒﻴﻊ ﻭﻳﺘﺼﺪﻕ ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﻳﺴﺎﻭﻱ ﻋﺸﺮﺓ ﻳﺘﺼﺪﻕ ﺑﻌﺸﺮﺓ ﻭﺇﻥ ﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﻋﻨﺪﻩ ﺷﻲء ﻓﻼ ﺷﻲء ﻋﻠﻴﻪ ﻛﺬا ﻓﻲ ﻓﺘﺎﻭﻯ ﻗﺎﺿﻲ ﺧﺎﻥ.
فتاوى قاضي خان:(في اليمين بالصوم والصدقه ونحو ذلك،281/3،ط: رشیدیه)
فتاوی تاتارخانیة:(کتاب الأیمان ،فتوی :284/6،9338،ط: رشیدیه)
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص کراچی