سوال:
ایک مقتدی امام کی غلط عیب جوئی کرتا ہے اور امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا ہے، یہ مقتدی ٹھیک جماعت کے وقت بر آمدے میں اکیلے نماز ادا کرتا ہے جبکہ امام مسجد کے اندر نماز پڑھا رہا ہوتا ہے اور کہتا ہے ایسے امام کے پیچھے میری نماز نہیں ہوگی اس امام کے اندر فلاں فلاں عیب ہے، حالاںکہ امام میں شرعی کوئی عیب نہیں ہے، اگر شرعی ہوتو کیا اس امام کے پیچھے نماز نہیں ہوگی اور شرعی عیب کیا کیا ہے؟ کیا ایسے مقتدی کو ترک جماعت کا گناہ نہیں ہوگا؟ جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ کسی بھی مسلمان کی عیب جوئی کرنا حرام ہے، خاص طور پر امامت جیسے اہم منصب پر فائز شخص کی عیب جوئی کرنا، نیز جو عیوب اس میں نہیں ہیں، ان کی نسبت اس کی طرف کرکے لوگوں کے سامنے بیان کرنا اور زیادہ قبیح ہے، لہذا امام کی غلط عیب جوئی کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ اپنے اس فعل شنیع پر اللہ کے حضور سچے دل سے توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ مسجد میں جماعت کے دوران اپنی الگ نماز پڑھنے کے بجائے جماعت کی نماز میں شامل ہوکر نماز کی ادائیگی کا اہتمام کرے، بصورتِ دیگر وہ عند اللہ بڑا مجرم شمار ہوگا۔
تاہم اگر کوئی شخص فسق و فجور (جھوٹ، سود خوری، زنا وغیرہ) میں مبتلا ہو تو یہ اس کے اندر شرعی عیب شمار ہوگا، اس لیے ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ ہوگا، تاوقتیکہ وہ فسق و فجور والے اعمال سے توبہ نہ کرلے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (الحجرات، الآية: 12)
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیۡمٌ o
سنن أبي داؤد: (رقم الحدیث: 4888، 250/7، ط: دار الرسالة العالمية)
عن معاوية، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "إنك إن اتبعت عورات الناس أفسدتهم، أو كدت أن تفسدهم".
مراقي الفلاح: (ص: 155، ط: المكتبة العصرية)
وفيه لو أم قوما وهم له كارهون فهو من ثلاثة أوجه إن كانت الكراهة لفساد فيه أو كانوا أحق بالإمامة منه يكره وإن كان هو أحق بها منهم ولا فساد فيه ومع هذا يكرهونه لا يكره له التقدم لأن الجاهل والفاسق يكره العالم والصالح.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی