سوال:
شہر کی آبادی سے آدھا کلومیٹر دور عدالتیں قائم ہیں، وکلاء کے چیمبر ہیں، اس کے ساتھ سرکاری طور پر ججز کی رہائشی کالونی ہے، شہر اور عدالتوں کے درمیان کوئی آبادی نہیں ہے، عدالتوں سے آدھے کلومیٹر کے فاصلے پر سرکاری طور پر یتیم خانے کا ادارہ قائم ہے اور اس کے قریب ایک فرلانگ کے فاصلے پر سرکاری طور پر گونگے بہروں کا سکول ہے، اس علاقے میں آبادی ہے۔
معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا یہ علاقہ جہاں یتیم خانہ اور گونگے بہروں کا سکول ہے، فناء مصر کہلائے گا یا نہیں اور اس میں جمعہ قائم کرنا درست ہے یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ فقہاء نے فناء شہر کی جو تعریف کی ہے، اس میں شہر سے باہر کا وہ علاقہ شامل ہوتا ہے جو شہر والوں کی (سکونت کی) ضروریات میں استعمال ہوتا ہو، جیسے گھوڑوں اور جانوروں کے باندھنے کی جگہ یا کھیل کا میدان وغیرہ۔
پوچھی گئی صورت میں جس جگہ یتیم خانہ اور گونگوں بہروں کا اسکول واقع ہے، وہ نہ تو شہر کی آبادی سے متصل ہے اور نہ ہی اس پر "فناء شہر" کی تعریف صادق آتی ہے، اس لیے اس مقام پر جمعہ کی جماعت قائم کرنا درست نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
غنیة المستملی: (ص: 551، ط: اشرفی)
وفي الفتاویٰ الغیاثیة: لو صلی الجمعة في قریة بغیر مسجد جامع والقریة کبیرۃ لہا قریً، وفیہا والٍِ وحاکمٍ جازت الجمعة بنو المسجد أو لم یبنوا وہٰذا أقرب الأقاویل إلی الصواب، والمسجد الجامع لیس بشرط، ولہٰذا أجمعوا علی جوازہا بالمصلی في فناء المصر وہو مااتصل بالمصر معداً لمصالحه من رکض الخیل وجمع العساکر والمناضلة ودفن الموتیٰ وصلوٰۃ الجنازۃ ونحو ذٰلک لان له حکم المصر باعتبار حاجة اہله الیه .
رد المحتار: (139/2، ط: ایچ ایم سعید)
فقد نص الأئمة على أن الفناء ما أعد لدفن الموتى وحوائج المصر كركض الخيل والدواب وجمع العساكر والخروج للرمي وغير ذلك وأي موضع يحد بمسافة يسع عساكر مصر ويصلح ميدانا للخيل والفرسان ورمي النبل والبندق البارود واختبار المدافع وهذا يزيد على فراسخ فظهر أن التحديد بحسب الأمصار.
کذا فی فتویٰ جامعہ دارالعلوم دیوبند: (فتویٰ نمبر 164781)
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی