سوال:
محترم مفتی صاحب! ایک عورت ہے، اس عورت کا شوہر اور بیٹی اس کی زندگی میں ہی فوت ہوگئے تھے، اس عورت کا کوئی بیٹا نہیں ہے، اس کے رشتہ داروں میں ایک بھائی، دو بہنیں، نواسے اور نواسیاں ہیں، اس کا ایک گھر جو اس کا حق مھر ہے، اب اس کا دیور اس سے اس گھر کا مطالبہ کررہا ہے کہ یہ گھر میرے لیے چھوڑ دو۔
1) معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا نانی اپنا یہ مکان اپنے نواسے کے نام کرسکتی ہے کیونکہ وہ اس کے نام کرنا چاہتی ہے؟
2) کیا اس عورت کے وارث بہن بھائی ہوں گے یا بیٹی کی اولاد ہوگی؟
جواب: 1) واضح رہے کہ زندگی میں ہر شخص اپنی ملکیت کا خود مالک و مختار ہوتا ہے، لہذا نانی اپنی زندگی میں اپنا مکان مالکانہ اختیارات کے ساتھ نواسے کو دینا چاہیں تو دے سکتی ہیں، نواسے کو مالکانہ اختیارات کے ساتھ دینے کی صورت میں مکان نواسے کی ملکیت ہوجائے گا۔
نوٹ: واضح رہے کہ جس مکان میں ہبہ کرنے والے کی رہائش موجود ہو، جب تک ہبہ کرنے والا اس مکان سے اپنا سارا سامان لے کر نہ نکل جائے اور مکمل قبضہ نہ دے دے، اس وقت تک وہ مکان ہبہ کرنے والے کی ملیکت میں ہی رہتا ہے اور اس میں ہبہ تام نہیں ہوتا ہے۔
2) نیز اگر مرحومہ کی وفات کے وقت سوال میں مذکور ہی رشتہ دار ہوں اور کوئی رشتہ دار نہ ہو تو بہن بھائی شرعی وارث ہوں گے، جبکہ بہن بھائیوں کے ہوتے ہوئے نواسے اور نواسیوں کو مرحومہ کی میراث میں سے کچھ نہیں ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 176)
اِنِ امْرُؤٌا هَلَكَ لَیْسَ لَهٗ وَلَدٌ وَّ لَهٗۤ اُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَۚ-وَ هُوَ یَرِثُهَاۤ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهَا وَلَدٌؕ-فَاِنْ كَانَتَا اثْنَتَیْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَكَؕ- وَ اِنْ كَانُوْۤا اِخْوَةً رِّجَالًا وَّ نِسَآءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِؕ الخ
التاتارخانیة: (فیما یجوز من الھبة وما لا یجوز، نوع منه، 431/14، ط: رشیدیه کوئته)
"و في المنتقى عن أبي يوسف: لايجوز للرجل أن يهب لامرأته و أن تهب لزوجها أو لأجنبي دارًا وهما فيها ساكنان، و كذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن يد الواهب ثابتة علي الدار".
الدر المختار: (689/5، ط: سعید)
"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة"
الھندیة: (378/4، ط: دار الفکر)
لا يثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار،هكذا في الفصول العمادية.
الدر المختار مع رد المحتار: (کتاب الفرائض، فصل فی العصبات، 774/6، ط: دار الفکر)
ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل ثم أصله الأب ويكون مع البنت) بأكثر (عصبة وذا سهم) كما مر (ثم الجد الصحيح) وهو أبو الأب (وإن علا) وأما أبو الأم ففاسد من ذوي الأرحام (ثم جزء أبيه الأخ) لأبوين (ثم) لأب ثم (ابنه) لأبوين ثم لأب (وإن سفل) تأخير الإخوة عن الجد وإن علا قول أبي حنيفة وهو المختار للفتوى".
الھندیة: (الباب العاشر في ذوي الأرحام، 458/6، 461، ط: دار الفکر)
(الباب العاشر في ذوي الأرحام) وذوو الأرحام كل قريب ليس بذي سهم ولا عصبة وهم كالعصبات من انفرد منهم أخذ جميع المال، كذا في الاختيار شرح المختار وذوو الأرحام أربعة أصناف: صنف ينتمي إلى الميت وهم أولاد البنات وأولاد بنات الابن.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی