سوال:
السلام علیکم، حضرت مفتی صاحب آپ سے میراث کے حوالے سے معلوم کرنا تھا کہ والد صاحب کی وفات کے بعد بڑے بھائی نے والد کی میراث (جس میں کچھ ایکڑ زرعی زمین، مکان اور دکان وغیرہ شامل ہیں) اپنی والدہ، پانچ بہنوں اور ایک چھوٹے بھائی میں تقسیم نہیں کی، اس دوران والدہ وفات کرچکی، پانچوں بہنوں کی شادیاں ہوچکیں (جو تاحال زندہ ہیں) جبکہ چھوٹا بھائی ابھی حیات ہے، لیکن بڑا بھائی اب اللّٰہ کو پیارا ہوچکا ہے۔ حضرت اب ایسی صورت میں مرحومہ والدہ، پانچ بہنوں اور دو بھائی (جن میں سے بڑا بھائی جس نے تقسیم نہیں کی تھی، اس کا انتقال ہوگیا ہے) کو کتنا کتنا حصہ شریعت کی روشنی میں ملے گا؟
جواب: مرحومین کی تجہیز وتکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو بہتر (72) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو سولہ (16) اور پانچوں بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو آٹھ (8) حصے ملیں گے۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں تو دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو %22.22 فیصد حصہ اور پانچوں بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو %11.11 فیصد حصہ ملے گا۔
نوٹ: مرحوم بیٹے کو اپنے والدین کی میراث میں سے ملنے والا حصہ اس کے شرعی ورثاء میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11)
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ ... الخ
و قوله تعالیٰ: (النساء، الایة: 12)
فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْن ... الخ
الدر المختار: (کتاب الفرائض، 81/6، ط: دار الفکر)
فصل في المناسخة (مات بعض الورثة قبل القسمة للتركة صححت المسألة الأولى) وأعطيت سهام كل وارث (ثم الثانية) ... الخ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی