سوال:
ایک آدمی مدرسہ بنانے کا ارادہ کر رہا تھا، اسے امید تھی کہ مسافر بچے بھی آ جائیں گے، اسی لئے اس نے گندم کے موقع پر لوگوں سے عشر کی اپیل کی تو لوگوں نے عشر کے دانے دیے کچھ نے نفلی طور گندم بھی دی، پھر کچھ حالات کی وجہ سے وہ مدرسہ نہ بنا سکا، تیس من کے قریب گندم اکھٹی ھوئی تھی، متفرق طور پر تھوڑی تھوڑی کر کے لوگوں نے دی تھی، ان کو واپس کرنا بھی مشکل ہے، اب اس گندم کا مصرف کیا ہے؟ وصول کرنے والا بھی خود نصاب کا مالک نہیں ہے تو کیا یہ آدمی خود استعمال کر سکتا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں کر سکتا تو پھر کہاں خرچ کرے؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں مذکورہ شخص اگرچہ خود مستحق زکوۃ ہو تب بھی اس کے لیے عشر وغیرہ کا گندم اپنے لیے رکھنا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس نے یہ گندم مدرسے کے فقراء طلبہ کا نمائندہ اور وکیل بن کر وصول کی ہے۔
چونکہ وکیل امین ہوتا ہے اور اسے مؤکّل کے ہدایات کی خلاف ورزی کا حق نہیں ہوتا ہے، لہذا اس پر لازم ہے کہ عشر وغیرہ کی مد میں جمع کیا ہوا گندم کسی مدرسے کے مستحق طلبہ کو دے دے۔ اس صورت میں بھی بہتر یہ ہے کہ عشر وغیرہ کی مد میں گندم دینے والوں سے اجازت لے لے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (28/6، ط: دار الكتب العلمية)
لأن الوكيل يتصرف بولاية مستفادة من قبل الموكل فيملك قدر ما أفاده، ولا يثبت العموم إلا بلفظ يدل عليه، وهو قوله: اعمل فيه برأيك وغير ذلك مما يدل على العموم.
رد المحتار: (269/2، ط: دار الفكر)
و هنا الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل و قد أمره بالدفع إلى فلان فلايملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره، فتأمل
امداد الاحکام: (190/3، ط: مکتبه دار العلوم کراتشی)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی