سوال:
جناب مفتی صاحب! ایک عورت (بلقیس بانو) کا انتقال فروری 2023 میں ہوا، انتقال کے وقت شوہر، چار بہنیں اور دو بھتیجے تھے، مرحومہ کے بچے نہیں تھے اور والدین کا بھی مرحومہ سے پہلے انتقال ہوچکا ہے، مرحومہ کے انتقال کے بعد مرحومہ کے شوہر کا مارچ 2023 میں اور مرحومہ کی ایک بہن کا ستمبر 2023 میں انتقال ہوگیا ہے۔
1)معلوم یہ کرنا ہے کہ مرحومہ بلقیس بانو کے ورثاء کون کون ہیں؟ مرحومہ کے شوہر اور مرحومہ بہن کا حصہ کس طرح تقسیم ہوگا؟
2) یہ بھی رہنمائی فرمائیں کہ شوہر کا حصہ (1/2) اور بہنوں کا حصہ (2/3) ہے جو کہ سو فیصد سے اوپر جارہاہے تو اس صورت میں وراثت کی تقسیم کا حساب کیا ہوگا؟
جواب: 1) واضح رہے کہ اگر مرحومہ کے انتقال کے وقت صرف یہی رشتہ دار تھے جو سوال میں مذکور ہیں تو شریعت کے مطابق مرحومہ کی وراثت صرف ان کے شوہر اور ان کی چار بہنوں میں تقسیم کی جائے گی۔
لہذا مرحومہ کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو سات (7) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے شوہر کو تین (3) اور چار بہنوں میں سے ہر ایک بہن کو ایک (1) حصہ ملے گا۔
فیصد کے اعتبار سے شوہر کو %42.85 فیصد حصہ اور چار بہنوں میں سے ہر ایک بہن کو %14.28 فیصد حصہ ملے گا۔
نوٹ: جن ورثاء کا انتقال مرحومہ کے بعد ہوا ہے، ان کو مرحومہ کی میراث سے ملنے والا حصہ ان کے اپنے شرعی ورثاء میں ان کے حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوگا۔
2) نیز واضح ہو کہ سوال میں ذکر کردہ مسئلہ "عول" ہے، یعنی جب مسئلہ کم سے بن رہا ہو اور سہام (حصے) زیادہ ہوں تو میراث کی اصطلاح میں اس قسم کے مسئلہ کو "عول" کہا جاتا ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ جتنے سہام (حصے) ہوں گے، مسئلہ اتنے سے ہی بنے گا۔
سوال میں پوچھی گئی صورت میں شوہر کو نصف (1/2) ہی مل رہا ہے، لیکن یہ عرفی نصف (1/2) نہیں ہے بلکہ ورثاء کے زیادہ ہونے کی وجہ سے ہر وارث کے حصے سے اسی تناسب سے کمی کردی گئی ہے جس تناسب سے حصص مسئلہ سے بڑھے تھے، لہذا اس اصول کے مطابق تقسیم کرنے سے مسئلہ %100 فیصد سے اوپر نہیں جا رہا ہے، بلکہ %99.99 فیصد بن رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 12)
وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ ... الخ
و قوله تعالیٰ: (النساء، الایة: 176)
إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ ... الخ
الدر المختار مع رد المحتار: (786/6، ط: دار الفكر)
باب العول وضده الرد كما سيجئ (هو زيادة السهام) إذا كثرت الفروض (على مخرج الفريضة) ليدخل النقص على كل منهم بقدر فرضه كنقص أرباب الديون بالمحاصة، وأول من حكم بالعول عمر رضي الله تعالى عنه ثم المخارج سبعة:
أربعة لا تعول الاثنان والثلاثة والاربعة والثمانية، وثلاثة قد تعول بالاختلاط كما سيجئ في باب المخارج (فستة تعول) أربع عولات (إلى عشرة وترا وشفعا) فتعول لسبعة كزوج وشقيقتين، ولثمانية كهم وأم، ولتسعة كهم وأخ لام، ولعشرة كهم وأخ آخر لام (واثنا عشره تعول ثلاثا إلى سبعة عشر وترا لا شفعا) فتعول لثلاثة عشر كزوجة وشقيقتين وأم، ولخمسة عشر كهم وأخ
لام، ولسبعة عشر كهم وآخر لام (وأربعة وعشرون تعول إلى سبعة وعشرين) فقط
مسائل الفرائض ثلاثة أقسام: عادلة، وعاذلة، وعائلة: أي منقسم بلا كسر أو بالرد أو بالعول، وهو في اللغة: الميل والجور ويستعمل بمعنى الغلبة يقال: عيل صبره أي غلب وبمعنى الرفع يقال: عال الميزان إذا رفعه فقيل إن المعنى الاصطلاحي مأخوذ من الأول لأن المسألة مالت على أهلها بالجور حيث نقصت من فروضهم والتقسيم المار كالصريح فيه، لأن العادلة من العدل مقابل الجور وقيل من الثاني لأنها غلبت أهلها بإدخال الضرر عليهم، وقيل من الثالث، لأنها إذا ضاق مخرجها بالفروض المجتمعة ترفع التركة إلى عدد أكثر من ذلك المخرج ثم يقسم حتى يدخل النقصان في فرائض جميع الورثة واختاره السيد (قوله: وضده الرد) إذ بالعود تنتقص سهام ذوي الفروض ويزداد أصل المسألة وبالرد يزداد السهام وينتقص أصل المسألة، وبعبارة أخرى في العول تفضل السهام على المخرج، وفي الرد يفضل المخرج على السهام سيد (قوله: هو زيادة السهام) أي سهام الورثة فأل عوض عن المضاف إليه وبذا سهل الإضمار في قوله الآتي على كل منهم ط.
(قوله: على مخرج الفريضة) أي مخرج السهام المفروضة الذي يقال له أصل المسألة، وهو عبارة عن أقل عدد صحيح يتأتى منه حظ كل فريق من الورثة بلا كسر اه سكب الأنهر (قوله: كنقص أرباب الديون بالمحاصة) أي الديون التي ضاقت عنها التركة وليس بعضها أولى من بعض فالنقص على الجميع بقدر حقوقهم.
شریفیه: (ص: 54)
وحاصله ان المخرج اذا ضاق عن الوفاء بالفروض المجتمعة فیه، ترفع الترکة الی عدد اکثر من ذلک المخرج ثم تقسم حتی یدخل النقصان فی فرائض جمیع الورثة علی نسبة واحدة.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی