سوال:
گاؤں میں مولانا صاحب کو جو تنخواہ دی جاتی ہے، وہ فصل کی کٹائی کے وقت ایک خاص مقدار فصل کی دی جاتی ہے۔ گاؤں میں ہماری مسجد کے امام صاحب الحمدللہ عالم دین ہیں، کراچی میں کورنگی کے کسی مدارس کے فاضل ہیں، اس کے ساتھ انہوں نے گاؤں میں محنت کر کے وہاں کافی بچوں کو حافظ قرآن بنایا، لیکن گاؤں میں کچھ لوگوں کا ان سے اختلاف ہوگیا اور ان کی تنخواہ بند کر دی۔
میں نے اپنے تئیں اپنے دوستوں سے ماہانہ کی بنیاد پر مسجد کے امام صاحب کی تنخواہ کے لیے چندہ جمع کیا اور ہر ماہ ان کو خود سے ایک رقم بھیجنا شروع کر دی، کچھ عرصہ بعد چندہ میرے پاس زیادہ جمع ہو رہا تھا، میں ایک معقول رقم ان کو دے رہا تھا کہ اگر کل کو کسی نے نہ دیا تو میں تو ان کو دے سکوں، اب میرے پاس اچھی خاصی رقم جمع ہو گئی ہے۔
1) سوال یہ کہ کیا میں اسی مسجد میں الگ سے حفظ کی کلاس شروع کر کے اس استاد کو ان پیسوں سے تنخواہ دے سکتا ہوں؟
2) کیا ان پیسوں سے اس مسجد کے علاوہ کسی دوسری مسجد کے مولوی صاحب کے ساتھ تعاون کر سکتا ہوں؟ جبکہ میں نے نیت اس مسجد کے امام صاحب کی تنخواہ کی نیت کر کے چندہ اکٹھا کیا ہے۔
3) کیا میں ان پیسوں میں امام صاحب کے گھر کی تعمیر کا کام کرواہ سکتا ہوں؟
4) کیا اس مسجد کے امام صاحب یا کسی اور مسجد کے امام صاحب کو ان پیسوں سے عمرہ پر بھیج سکتا ہوں؟
5) کل کو اگر یہ استاد چھوڑ کر چلا جائے تو اس کی جگہ آنے والے استاد کے ساتھ تعاون کرنا لازمی ہے یا اسی کے ساتھ کرنا ہوگا؟
جزاکم اللہ خیرا
جواب: (1٫2) سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ چندہ مسجد کے امام کی تنخواہ کی مد میں جمع کیا گیا ہے، لہذا اس مسجد کے مکتب کے مدرس کو اس چندے میں سے تنخواہ دینا جائز نہیں ہوگا، البتہ زائد رقم سے بوقت ضرورت دوسری مسجد کے امام کو تنخواہ دی جاسکتی ہے، کیونکہ مخصوص مصرف میں دی گئی اضافی رقم اس کے مثل مصرف میں بوقتِ ضرورت لگانے کی گنجائش ہے، لیکن اگر آئندہ چندہ دینے والوں سے اس کی اجازت لے لی جائے کہ چندہ کی رقم اس مسجد کے امام کی تنخواہ کے ساتھ ساتھ اس مسجد کے مکتب کے استاذ کی تنخواہ میں بھی صرف کی جائے گی تو اس کے بعد چندہ کی رقم سے مکتب کے مدرس کو بھی تنخواہ دینا جائز ہوگا۔
(کذا فی امداد الفتاوی مع جدید مطول حاشیہ، 36/6، ط: نعمانیہ)
(3) امام کے گھر کی تعمیر چونکہ مصالحِ مسجد میں داخل ہے، لہذا تنخواہ سے زائد رقم امام کے گھر کی تعمیر میں خرچ کرنا درست ہے، البتہ یہ گھر چونکہ مصالح مسجد کے لیے تعمیر کیا جا رہا ہے، اس لیے یہ گھر امام کی ملکیت شمار نہیں ہوگا۔
(4) مذکورہ چندے کی رقم سے امام کو عمرے پر بھیجنا جائز نہیں ہے، کیونکہ امام کو عمرہ پر بھیجنا مصالحِ مسجد میں داخل نہیں ہے، البتہ اگر آئندہ چند دینے والوں کی طرف سے اجازت ہو تو پھر اس کی اجازت ہوگی۔
(5) جو شخص بھی مسجد ہذا کا مستقبل میں امام بنے گا، اس کو مذکورہ چندہ کی رقم سے تنخواہ دینا جائز ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (360/4، ط: دار الفکر)
(اتحد الواقف والجهة وقل مرسوم بعض الموقوف عليه) بسبب خراب وقف أحدهما (جاز للحاكم أن يصرف من فاضل الوقف الآخر عليه) لأنهما حينئذ كشيء واحد.
(وإن اختلف أحدهما) بأن بنى رجلان مسجدين أو رجل مسجدًا ومدرسة ووقف عليهما أوقافا (لا) يجوز له ذلك."
وفيه ايضاً: (367/4، ط: دار الفکر)
على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة.
و فيه ايضاً: (445/4، ط: دار الفکر)
(ويبدأ من غلته بعمارته) ثم ما هو أقرب لعمارته كإمام مسجد ومدرس مدرسة يعطون بقدر كفايتهم، ثم السراج والبساط كذلك إلى آخر المصالح وتمامه في البحر.
وفي الدر المختار مع الرد: (359/4، ط: دار الفکر)
و) كذا (الرباط والبئر إذا لم ينتفع بهما فيصرف وقف المسجد والرباط والبئر) والحوض (إلى أقرب مسجد أو رباط أو بئر) أو حوض (إليه) تفريع على قولهما درر وفيها: وقف ضيعة على الفقراء وسلمها للمتولي ثم قال لوصيه: أعط من غلتها فلانا كذا وفلانا كذا لم يصح لخروجه عن ملكه بالتسجيل
(قوله: إلى أقرب مسجد أو رباط إلخ) لف ونشر مرتب وظاهره أنه لا يجوز صرف وقف مسجد خرب إلى حوض وعكسه وفي شرح الملتقى يصرف وقفها لأقرب مجانس لها. اه. ط.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی