سوال:
مفتی صاحب! میرا سوال یہ ہے کہ میں ایک مارکیٹ میں تین نمازیں پڑھاتا ہوں، مارکیٹ کی دکان والے چوری کی بجلی استعمال کرتے ہیں، میں ان کے ساتھ کھانا بھی کھاتا ہوں چائے بھی پیتا ہوں اور مجھے ہر روز چھ روٹیاں بھی مارکیٹ میں بنے تندور سے ملتی ہیں جو کہ چوری کی بجلی استعمال کرتے ہیں تو کیا میرے لیے ان کا کھانا، چائے اور روٹی استعمال کرنا جائز ہوگا اور مجھے تنخواہ بھی یہی مارکیٹ والے دیتے ہیں تو کیا میرا تنخواہ لینا جائز ہوگا؟
جواب: واضح رہے کہ مارکیٹ والوں کا چوری کی بجلی استعمال کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، اس سے اجتناب لازم ہے۔ تاہم محض اس کی وجہ سے آپ کے لیے اس مارکیٹ میں نماز پڑھانا، تنخواہ وصول کرنا اور وہاں سے کھانا وغیرہ کھانا ناجائز یا حرام نہیں ہوگا، البتہ حکمت و مصلحت کے ساتھ ان کو اس گناہ کے کام سے بچنے کی ترغیب دینی چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
تبیین الحقائق:(5/227، ط:المطبعة الكبرى الأميرية)
إن المحظور لغیرہ لا یمتنع أن یکون سببا لحکم شرعي،ألا ترى أن الصلاة في الأرض المغصوبة تجوز وتكون سببا لحصول الثواب الجزيل.
الفتاوى الهندية: (1/ 109)
الصلاة في أرض مغصوبة جائزة ولكن يعاقب بظلمه فما كان بينه وبين الله تعالى يثاب وما كان بينه وبين العباد يعاقب
الدر المختار مع الرد: (6/ 200 ط. ایچ ایم سعید)
لا يجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی