سوال:
مفتی صاحب! میں ایک چائے کے ہوٹل کے باہر کا حصہ فاسٹ فوڈ آیٹم کے لیے رینٹ پہ لے رہا ہوں جو کہ ہوٹل کی حدود سے باہر ہے، لیکن ہوٹل کے سامنے ہونے کی وجہ سے ہوٹل کے استعمال میں ہے جو کہ عوام کے لیے فٹ پاتھ کی جگہ ہے، لیکن ہوٹل والے نے شیڈ اور لائٹس لگا کر آباد کیا ہے، جبکہ ہوٹل والا خود بھی رینٹ پہ بیٹھا ہے۔ مجھے پوچھنا یہ ہے کہ کیا ایسی جگہ پہ کاروبار کرنا جہاں بھی بجلی بھی کنڈے کی ہو جائز ہے؟ ہوٹل والا چوری کی بجلی استعمال کرتا ہے اور اسی میں سے مجھے فکس پیسوں 30 ہزار میں جگہ بجلی کے ساتھ دے رہا ہے۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر راہ گزرنے کی جگہ (Footpath) ہوٹل والوں کی ملکیت میں نہ ہو تو ایسی جگہ پر کرایہ داری کا معاملہ کرنا ہی جائز نہیں ہے، نیز غیر قانونی تجاوزات والی جگہ پر کاروبار کرنا بہت سی شرعی خرابیوں مثلاً: راستہ پر چلنے والوں کو تکلیف پہنچنانا، عوامی جگہوں پر ناجائز قبضہ کرنا اور حکومت کے جائز قوانین کی خلاف ورزی وغیرہ پر مشتمل ہے، لہذا ایسی جگہ کاروبار کرنا جائز نہیں ہے۔
تاہم اگر کسی نے تجاوزات والی جگہ کرایہ پر لے کر جائز اشیاء کا کاروبار کیا ہو تو اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو حرام نہیں کہا جائے گا، بشرطیکہ آمدنی کے حرام ہونے کی کوئی اور وجہ نہ پائی جائے، لیکن ایسی آمدنی میں کراہت ضرور آئے گی، لہذا ایسی جگہ کاروبار کرنے سے اجتناب لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن ابی داؤد: (باب فی الجلوس فی الطرقات، رقم الحدیث: 4815، ط: المکتبة العصریة)
حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا عبد العزيز يعني ابن محمد، عن زيد يعني ابن أسلم، عن عطاء بن يسار، عن أبي سعيد الخدري، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «إياكم والجلوس بالطرقات» قالوا: يا رسول الله، ما بد لنا من مجالسنا نتحدث فيها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن أبيتم فأعطوا الطريق حقه» قالوا: وما حق الطريق يا رسول الله؟ قال: «غض البصر، وكف الأذى، ورد السلام، والأمر بالمعروف، والنهي عن المنكر».
الهندية: (الباب السابع في جلوس القاضي، 320/3، ط: دار الفکر)
ولا بأس بأن يقعد على الطريق إذا كان لا يضيق بالمارة كذا في التبيين.
و فيها ايضاً: (الباب الخامس في المتفرقات، 406/5، ط: دار الفکر)
ولو بنى رجل في الطريق العام كان لكل واحد أن يخاصمه في ذلك ويهدمه فأما بينه وبين الله تعالى فإن كان هذا الحائط الذي بناه في الفرات يضر بمجرى السفن أو الماء لم يسعه وهو فيه آثم وإن كان لا يضر بأحد فهو في سعة من الانتفاع بمنزلة الطريق العام إذا بنى فيه بناء فإن كان يضر بالمارة فهو آثم في ذلك وإن كان لا يضر بها فهو في سعة من ذلك
تکملة فتح الملہم: (باب وجوب طاعة الأمراء، 323/3، ط: اشرفیة)
وان المسلم یجب علیه أن یطیع أمیره في الأمور المباحة، فإن أمر الأمیر بفعل مباح وجبت مباشرته، وإن نہی عن أمر مباح حرم ارتکابه، ومن ہنا صرح الفقہاء بأن طاعة الإمام فیما لیس بمعصیۃ واجبة
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی