سوال:
مفتی صاحب! امید ہے کہ آپ عافیت سے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ سے آپ کی عافیت کیلئے دعاگو ہیں۔
ایک مسئلہ کی طرف رہنمائی درکار ہے، مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے علاقے میں لوکل گورنمنٹ نے تیس سال پہلے سنہ 1992 میں سٹلائٹ ٹاؤن کے نام سے ایک اسکیم جاری کی تھی جس میں مقامی لوگوں کو محدود رقم کے بدلے پلاٹ الاٹ کئے گئے تھے، اس اسکیم کے نقشے میں کچھ پلاٹ مساجد کے نام پر تھے، ایک پلاٹ جو نقشے میں مسجد کے نام پر ہے مگر لوکل گورنمنٹ نے وہ پلاٹ کسی شخص کے نام الاٹ کیا تھا اور اس کے نام الاٹمنٹ بھی جاری کی تھی۔
الاٹمنٹ لیٹر تقریباً 1992 سے اس کے نام جاری کی گئی ہے جس پر اس کا قبضہ بھی ہے اور جب روڈ کٹائی میں اس پلاٹ کا کچھ حصہ آگیا تھا تو اس کا معاوضہ بھی حکومت نے اس شخص کو دیا تھا، کیونکہ اس پلاٹ کے سرکاری کاغذات اسی کے نام پر ہیں۔
اب کچھ مقامی لوگوں کا کہنا ہے یہ جگہ چونکہ اسکیم کے نقشے میں مسجد کے طور پر منشن کی گئی ہے اس لئے یہ جگہ مسجد کےلئے وقف ہے، حالانکہ نہ یہاں مسجد کیلئے کوئی تعمیر ہوئی ہے اور نہ کبھی نماز پڑھی گئی ہے۔
دریافت طلب امر یہ ہیکہ کیا صرف اسکیم کے نقشے میں مذکورہ پلاٹ نمبر پر مسجد لکھنے سے یہ پلاٹ مسجد کے لئے وقف ہوگا کہ نہیں؟
حالانکہ گورنمنٹ کی طرف سے الاٹمنٹ لیٹر اور سرکاری کاغذات اس شخص کے نام جاری کئے گئے ہیں اور عرصہ دراز سے قبضہ بھی اسی کا ہے۔ فقہ اسلامی کی روشنی رہنمائی فرمائیں۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر لوکل گورنمنٹ نے مذکورہ پلاٹ کو باقاعدہ الگ کرکے تحریری یا زبانی طور پر مسجد کے لیے مختص نہیں کیا تھا، بلکہ صرف نقشہ کی حد تک اس کے محل وقوع کا اظہار کیا تھا تو صرف نقشہ کی حد تک الاٹ کرنے کی وجہ سے یہ پلاٹ مسجد کے لیے وقف نہیں ہوا ہے، لہذا اس کے بعد جس شخص کے نام پر اس کو الاٹ کیا ہے، اس کے لیے اس کو اپنے استعمال میں لانا جائز ہے۔
لیکن اگر اس وقت لوکل گورنمنٹ نے جس طرح مقامی لوگوں کے نام پر پلاٹ الاٹ کیے تھے، اسی طرح مذکورہ پلاٹ کو بھی باقاعدہ مسجد کے نام پر الاٹ کرکے مسجد کے لیے اس کو مختص (وقف) کردیا تھا تو ایسی صورت میں حکومت کی طرف سے بعد میں مذکورہ شخص کے نام پر جاری کرنے کے باوجود یہ پلاٹ مسجد کے لیے ہی رہے گا، اور اس صورت میں اس پلاٹ کو مسجد کے علاوہ کسی اور کے لیے ذاتی استعمال میں لانا جائز نہیں ہوگا، اور متعلقہ محکمہ کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس شخص کو اس پلاٹ کے علاوہ دوسرا پلاٹ دے کر اس جگہ کو صرف مسجد کے استعمال کے لیے خاص کردیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (195/4، ط: دار الفكر)
والأرصاد من السلطان ليس بإيقاف ألبتة وفي الأشباه قبيل القول في الدين أفتى العلامة قاسم بصحة إجارة المقطع وأن للإمام أن يخرجه متى شاء، وقيده ابن نجيم بغير الموات، أما الموات فليس للإمام إخراجه عنه لأنه تملكه بالإحياء فليحفظ.
(قوله وال إرصاد إلخ) الرصد الطريق ورصدته رصدا من باب قتل: قعدت له على الطريق، وقعد فلان بالمرصد كجعفر وبالمرصاد بالكسر، وبالمرتصد أيضا أي بطريق الارتقاب والانتظار، وربك لك بالمرصاد: أي مراقبك، فلا يخفى عليه شيء من فعالك، ولا تفوته مصباح ومنه سمي إرصاد السلطان بعض القرى، والمزارع من بيت المال على المساجد والمدارس، ونحوها لمن يستحق من بيت المال كالقراء والأئمة والمؤذنين ونحوهم، كأن ما أرصده قائم على طريق حاجاتهم يراقبها، وإنما لم يكن وقفا حقيقة لعدم ملك السلطان له، بل هو تعيين شيء من بيت المال على بعض مستحقيه فلا يجوز لمن بعده أن يغيره ويبدله كما قدمنا ذلك مبسوطا.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی