سوال:
مفتی صاحب! میرے شوہر فوت ہو گئے ہیں، ان پر کسی کا قرض تھا، میرے بیٹے نے قرض کا ذمہ اپنے اوپر لے لیا کہ میں قرض ادا کروں گا قرض دار پانچ مہینے تک نہیں ملا تو اس نے اس پیسے سے سونا لے کر منافع کمایا پھر قرض دار مل گیا تو اس نے اصل رقم قرض دار کو دے دی اور منافع نہی دیا۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا یہ منافع جو میرے بیٹے نے کمایا ہے، بیٹے پر حلال ہے؟
تنقیح: محترمہ! اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ کیا بیٹے کو قرض ادا کرنے کے لیے پیسے دیے گئے تھے یا بیٹے نے خود اپنے پیسوں سے اپنی طرف سے قرض ادا کرنے کی ذمہ داری لی تھی؟
جواب تنقیح: باپ کی وراثت کے پیسے تھے جو تقسیم سے پہلے قرضے کے غرض سے الگ کیے تھے۔
جواب: واضح رہے کہ اگر میراث کے مشترک مال میں سے کوئی وارث دوسرے ورثاء کی صراحتاً یا دلالۃً اجازت کے بغیر تصرف کر کے اس کے ذریعے تجارت کر کے نفع کمالے تو اس کے لیے صرف اپنے حصّے کے بقدر نفع لینا جائز ہوگا، البتہ باقی نفع اس کے ذمّہ صدقہ کرنا واجب ہوگا، لیکن اگر دیگر ورثاء موجود اور معلوم ہوں تو ان کو ان کے حصوں کے بقدر نفع لوٹائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
شرح المجلة: (المادة: 1090، 26/4، ط: رشيدية)
إذا أخذ أحد الورثة مبلغا من الدراهم من التركة قبل القسمة إن أذن الآخرين وعمل فيه وخسر تكون الخسارة عائدة اليه كما انه اذا ربح لا يسوغ لبقية الورثة طلب حصة منه.
لانه إما غاصب او مستودع وكل منهما استربح فيما في يده لنفسه، يكون ربحه له لا للمالك، لكن يملكه ملكا خبيثا سبيله التصدق به على الفقراء.
کذا فی فتاویٰ دار العلوم کراتشی: (1072/2
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی