عنوان: بھابھیوں کا دیور کو مکان خریدنے کے لیے اپنے زیورات یا اس کی رقم دینا (22561-No)

سوال: مفتی صاحب! میرا سوال یہ ہے کہ میرے بڑے بھائی نے ایک جگہ لی جس کے لے ان کے پاس پیسے تھوڑے کم تھے تو ہم دو بھائیوں کی اہلیہ نے اپنا اپنا زیور دے دیا تاکہ یہ جگہ لے سکیں، یہ زیور میرے بڑے بھائی نے ہی بنا کے دیے تھے اور یہ زیور ان کا حق مہر میں بھی لکھا ہوا ہے۔ کافی عرصے بعد بڑے بھائی باہر چلے گئے، وہاں ان کی سیٹینگ نہیں بنی تو انہوں نے کہا مجھ پر قرضہ آ گیا ہے، پہلے جو گھر یا پلاٹ تھے، وہ بڑے بھائی نے اپنے ہی پیسوں سے لیے تھے، وہ تو بیچ دیے اور آخر میں بات اس گھر کی آئی تو بھائی نے کہا کہ اس کو بھی بیچ دو۔ اس میں تو ہم رہے تھے جب مسئلے بڑھنے لگے تو ہم نے کہا کہ یہ آدھا بیچ دیں، آدھا بیچ دیا اور اس سے بھائی کا جو قرض تھا وہ دے دیا۔ اس کے کچھ سال بعد بھائی نے پھر کہا کہ یہ جو آدھا رہ گیا ہے، یہ بھی بیچ دو، میرے اوپر قرضہ ہے، کرتے کرتے وہ بھی بیچ دیا اور ہم دو بھائیوں کو کچھ بھی نہیں دیا۔ اب بات یہ ہے کہ ہماری بیویوں نے جو زیور دیا تھا، اس کے حساب سے اس گھر کے پیسوں میں ہمارا یا ہماری بیویوں کا کچھ حصہ بنتا ہے کہ نہیں؟ رہنمائی فرمائیں اللہ پاک آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین

جواب: واضح رہے کہ اگر وہ زیورات آپ کی بیویوں کی ملکیت تھے اور انہوں نے قرض کی صراحت کے ساتھ اپنے دیور کو دیے تھے تو اس صورت میں آپ کے بھائی پر اپنی بھابیوں کے زیورات یا اس کی موجودہ قیمت دینا لازم ہے اور اگر آپ کی بیویوں نے شراکت کی صراحت کے ساتھ زیورات یا اس کی مالیت کے بقدر پیسے دیے تھے تو جتنی مالیت کے زیورات یا رقم دی تھی، آپ کی بیویاں اس کے بقدر
اس مکان میں شریک ہوں گی اور اگر قرض یا شراکت کی صراحت کے بغیر اپنے دیور کے ساتھ معاونت کرنے لیے تبرعاً بطورِ ہدیہ (Gift) دیے تھے تو ایسی صورت میں آپ کی بیویوں کو کچھ نہیں ملے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

رد المحتار: (کتب الأیمان، 3/ 789، ط: دار الفکر)
مطلب في قولهم الديون تقضى بأمثالها
قلت: والجواب الواضح أن يقال قد قالوا إن الديون تقضى بأمثالها


الدر المختار: (5/ 161، ط: دار الفکر)
القرض ونحوه (يرد على دفع مال) بمنزلة الجنس (مثلي) خرج القيمي (لآخر ليرد مثله) خرج نحو وديعة وهبة.

(وصح) القرض (في مثلي) هو كل ما يضمن بالمثل عند الاستهلاك (لا في غيره) من القيميات كحيوان وحطب وعقار وكل متفاوت لتعذر رد المثل... (فيصح استقراض الدراهم والدنانير وكذا) كل (ما يكال أو يوزن أو يعد متقاربا ... الخ )

الهندية: (301/2، ط: دار الفكر)
الشركة نوعان شركة ملك وهي أن يتملك رجلان شيئا من غير عقد الشركة بينهما، كذا في التهذيب.. وشركة الملك نوعان: شركة جبر، وشركة اختيار ... وشركة الاختيار أن يوهب لهما مال أو يملكا مالا باستيلاء أو يخلطا مالهما، كذا في الذخيرة أو يملكا مالا بالشراء أو بالصدقة، كذا في فتاوى قاضي خان أو يوصى لهما فيقبلان، كذا في الاختيار شرح المختار، وركنها اجتماع النصيبين، وحكمها وقوع الزيادة على الشركة بقدر الملك..الخ

تنقیح الفتاوی الحامدیة: (کتاب الکفالة، 288/1، ط: دار المعرفة)
"المتبرع ‌لا ‌يرجع على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره."

العنایة شرح الھدایة: (189/7، ط:دار الفكر)
لأنه متبرع بأدائه والمتبرع لا يرجع.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 16 Dec 16, 2024

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.