سوال:
مفتی صاحب! ہماری ایک جائیداد ABL Islamic Bank والے کرایہ پر مانگ رہے ہیں، کیا جائیداد Islamic Bank کو کرایہ پر دینا ٹھیک ہے یا نہیں؟ وضاحت فرما دیں۔
جواب: واضح رہے کہ مروّجہ سودی بینک کے معاملات سود اور دیگر غیر شرعی خرابیوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے، لہذا جو بینک سودی معاملات کرتے ہوں، ان کو اپنی جائیداد کرایہ پر دینا، گویا گناہ کے کام میں معاون اور سبب بننا ہے، اس وجہ سے سودی بینک کو کرائے پر جگہ دینا جائز نہیں ہے۔
البتہ جو غیر سودی بینک مستند علماء کی زیرِ نگرانی شرعی اصولوں کے مطابق اپنے معاملات سر انجام دیتے ہوں، ان کو کرایہ پر جگہ دینا شرعاً درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (المائدۃ: الایة: 2)
وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ....الخ
فقه البیوع: (186/1، ط: مکتبة معارف القرآن)
"وان لم یکن محرکا و داعیا، بل موصلا محضا، وھو مع ذلك سبب قریب بحیث لا یحتاج فی اقامة المعصیة به الی احداث صنعة من الفاعل، کبیع السلاح من اھل الفتنة، وبیع الامرد ممن یعصی به واجارۃ البیت ممن یبیع فیه الخمر او یتخذہ کنیسة او بیت نار وامثالھا فکله مکروہ تحریما بشرط ان یعلم به البائع والمؤجر، من دون تصریح به باللسان، فانه ان لم یعلم کان معذورا وان علم و صرح کان داخلا فی الاعانة المحرمة".
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص، کراچی