سوال:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب شرطوں سے زیادہ پورا کرنے کی حقدار وہ شرطیں ہیں، جن سے تم نے شرمگاہوں کو اپنے لیے حلال ٹہرایا ہے۔ "بعض راویوں بے شرط لا لفظ مفدر بولا اور بعض نے شروط جمع کا لفظ استعمال کیا" (صحیح مسلم، حدیث نمبر:2272، باب الوفاء بالشروط فی النکاح)
مفتی صاحب! میری سمجھ کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ نکاح کی شرائط بہت اہم ہیں ان کو پورا کرنا چاہیے۔ کیا میری بات درست ہے؟
جواب: واضح رہے کہ مذکورہ حدیث میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن شرائط کو پورا کرنے کی بابت ارشاد فرمایا ہے، ان سے مراد وہ حقوق ہیں جن کو پورا کرنا ایک شوہر کی ذمہ داری ہوتی ہے، مثلاً: بیوی کا مہر، اس کے کھانے، پینے اور لباس کا خرچہ، اور اس کی رہائش کے لیے مکان وغیرہ کا انتظام کرنا، ان حقوق کو شرط کے ساتھ اس لیے تعبیر فرمایا ہے کہ شرط کی طرح ان کو پورا کرنا لازم ہوتا ہے۔ (مستفاد: مظاہر حق 306/3، ط: مکتبۃ العلم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل:
الصحیح لمسلم: (1035/2، رقم الحدیث: 1418، ط: دار إحياء التراث)
عن عقبة بن عامر؛ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن أحق الشرط أن يوفى به، ما استحللتم به الفروج".
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: (2066/5، ط: دار الفكر)
قال القاضي: المراد بالشروط هاهنا المهر لأنه المشروط في مقابلة البضع، وقيل: جميع ما تستحقه المرأة بمقتضى الزوجية من المهر والنفقة وحسن المعاشرة فإن الزوج التزمها بالعقد فكأنها شرطت فيه، وقيل: كل ما شرط الزوج ترغيبا للمرأة في النكاح ما لم يكن محظورا، قال النووي - رحمه الله -: قال الشافعي: أكثر العلماء على أن هذا محمول على شرط لا ينافي مقتضى النكاح، ويكون من مقاصده كاشتراط العشرة بالمعروف الإنفاق عليها وكسوتها وسكناها، ومن جانب المرأة أن لا تخرج من بيته إلا بإذنه ولا تصوم تطوعا بغير إذنه ولا تأذن غيره في بيته إلا بإذنه ولا تتصرف في متاعه إلا برضاه ونحو ذلك.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی