سوال:
مفتی صاحب! نذر کی تعریف، اس کی اقسام، شرائط اور حکم بیان فرمادیں۔
جواب: نذر کی تعریف
کسی ایسی چیز کو اللہ تعالیٰ کے واسطے اپنے اوپر واجب کرلینے کو جو اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے واجب نہ ہو نذر یا منت ماننا کہتے ہیں۔
نذر کا حکم
شرعاً نذر کا حکم یہ ہے کہ جب کوئی شخص عبادات میں سے کسی چیز کی نذر کرے تو اس کی نذر کا پورا کرنا واجب ہے، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہ کے کام میں نذر کا پورا کرنا جائز نہیں ہے، اور نہ اس چیز میں نذر کا پورا کرنا واجب ہے جس کا بندہ مالک نہ ہو۔
نذر کی شرطیں
اگر نذر کے صحیح ہونے کی کوئی شرط نہ پائی جائے تو نذر صحیح نہیں ہوتی، نذر کے صحیح ہونے کی شرطیں یہ ہیں:
1۔ جس چیز کی نذر کی جائے اس کی جنس سے شرعاً کوئی فرض ہو مثلا روزہ، نماز، صدقہ و اعتکاف وغیرہ کی نذر کرنا، پس عیادت کرنا، جنازہ کے ساتھ چلنا، مسجد میں داخل ہونا وغیرہ کی نذر کرنا صحیح نہیں ہے اور اس سے کچھ لازم نہیں ہوگا۔
2۔وہ چیز جس کی نذر کی جائے بالذات مقصودہو وسیلہ نہ ہو، پس وضو و سجدہِ تلاوت، تلاوتِ قرآن مجید، دخولِ مسجد وغیرہ کی نذرصحیح نہیں ہوگی۔
3۔ جس چیز کی نذر کرے وہ اس وقت یا کسی اور وقت میں واجب نہ ہو، پس اگر ظہر کی نماز یا کسی اور وقت کی نماز کی نذر کرے تو صحیح نہیں ہے۔
4۔وہ چیز جس کی نذر کی جائے اپنی ذات کے اعتبار سے گناہ کا کام نہ ہو، مثلاً: شراب پینا، کسی کو قتل کرنا وغیرہ کی نذر نہ ہو۔
5۔ جس کام کی نذر کرے اس کا ہونا محال نہ ہو، پس اگر کسی نے گزرے ہوئے دن کا روزہ رکھنے کی نذر کی تو یہ نذر صحیح نہیں ہے، یعنی یہ نذر اس پر واجب نہیں ہوگی۔
6۔ نذر کے الفاظ زبان سے ادا کرنا، پس محض دل میں نیت کر لینے سے نذر لازم نہیں۔
8،7۔ جس قدر مال کی نذر اپنے اوپر واجب کی ہے، اسی قدر مال اس کی ملکیت میں موجود ہو اور وہ مال کسی دوسرے کی ملکیت نہ ہو۔
یہ دونوں شرطیں بعض صورتوں کے ساتھ مخصوص ہیں، پس جس قدر مال کی نذر کی ہے، اگر اس کے پاس اس سے کم ہے تو جس قدر اس کے پاس مال ہے، صرف اسی قدر صدقہ کرنا واجب ہوگا، مثلاً: اگر کسی نے نذر کی کہ وہ اپنے مال میں سے ایک ہزار روپیہ صدقہ کرے گا اور اس کے پاس صرف سو روپے ہیں تو اس کو سو روپے صدقہ کرنا لازم ہے۔
9۔ اپنی نذر کے الفاظ کہتے وقت متصل ہی لفظ انشاء اللہ نہ کہنا۔ پس اگر نذر کے الفاظ کے ساتھ متصل ہی لفظ انشاء اللہ بھی کہا تو اس پر کچھ لازم نہ ہوگا اور وہ نذر باطل ہو جائے گی۔
اقسام نذر
نذرکی دو قسمیں ہیں:
1۔نذر معین
2۔نذر غیر معین
پھر ان دونوں کی بھی دو قسمیں ہیں: ایک یہ کہ کسی شرط پر معلّق ہو اور وہ شرط پائی جائے، مثلاً یہ کہ کسی نے یوں کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے میرے مریض کو صحت عطا فرمائی تو مجھ پر ایک دن کا روزہ واجب ہے، پھر اُس کے مریض کو صحت حاصل ہو گئی۔
دوسرے یہ کہ وہ نذر غیر معلّق یعنی مطلق ہو، مثلاً: یوں کہے کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کے واسطے ایک دن کا روزہ واجب ہے یا ایک سال کے روزے واجب ہیں یا اس ہفتہ میں جمعرات کا روزہ واجب ہے وغیرہ۔
جو نذر کسی شرط پر معلّق ہوتی ہے جب وہ شرط پوری ہو جائے تو اس وقت یہ نذر بھی مطلق کے حکم میں ہو جاتی ہے، یعنی اس کا پورا کرنا بھی نذرِ مطلق کی طرح واجب ہو جاتا ہے۔
(ماخوذ از زبدۃ الفقہ، ص:528 تا 530، ط:زوار اکیڈمی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
البحر الرائق: (كتاب الصوم، باب مايفسد الصوم ومالايفسده، 316/2، ط: رشيدية)
"واعلم بأنهم صرحوا بأن شرط لزوم النذر ثلاثة كون المنذور ليس بمعصية وكونه من جنسه واجب وكون الواجب مقصودا لنفسه قالوا فخرج بالأول النذر بالمعصية والثاني نحو عيادة المريض والثالث ما كان مقصودا لغيره حتى لو نذر الوضوء لكل صلاة لم يلزم وكذا لو نذر سجدة التلاوة."
بدائع الصنائع: (كتاب النذر، فصل: وأما شرائط الركن فأنواع، 82/5، ط: سعيد)
"(ومنها) أن يكون قربة مقصودة، فلا يصح النذر بعيادة المرضى وتشييع الجنائز والوضوء والاغتسال ودخول المسجد ومس المصحف والأذان وبناء الرباطات والمساجد وغير ذلك وإن كانت قربا؛ لأنها ليست بقرب مقصودة ويصح النذر بالصلاة والصوم والحج والعمرة والإحرام بهما والعتق والبدنة والهدي والاعتكاف ونحو ذلك؛ لأنها قرب مقصودة."
الفقه على المذاهب الأربعة: (كتاب اليمين، مباحث النذر، 131/2، ط: دار الكتب العلمية)
"ويشترط لصحة النذر سبعة شروط: الأول أن يكون من جنس المنذور فرض أو واجب اصطلاحي على الأصح كالصوم والصلاة والصدقة."
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی