resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: ناپاک پانی کے پاک کرنے کا طریقہ (22588-No)

سوال: مفتی صاحب! کیا کیمیکل یا مشین وغیرہ کے ذریعہ ناپاک اور گندے پانی کو فلٹر کرنے سے ناپاک پانی پاک اور صاف ہوجاتا ہے؟ گھریلو پانی، ندی یا گندے نالے کے پانی کو کیمیکل وغیرہ کے ذریعہ صاف کرلیا جائے تو کیا وہ پاک ہوجائے گا؟ اور اسے پینے یا وضو کے لیے استعمال کرسکتے ہیں؟ بعض فتاوی میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ پانی پاک ہوجاتا ہے، حالانکہ اس پر سخت اشکال ہے کہ ایک پانی میں جب نجاست مل چکی تو ایسے پانی پر نجس کا حکم لگایا جاتا ہے تو اب وہ کیسے پاک ہوسکتا ہے؟ رہنمائی فرمادیں

جواب: سوا ل میں ذکر کردہ مسئلہ کا مدار اس پر ہے کہ جب کسی بھی مائع چیز یا پانی میں نجاست وغیرہ شامل ہوتی ہے تو کیا وہ اس مائع چیز یا پانی کی حقیقت کو ختم کرکے اس کو ہمیشہ کے لیے ناپاک اور گندا کردیتی ہے یا یہ کہ نجاست اس کو عارضی طور پر لاحق ہوتی ہے، بایں طور کہ اگر اس میں سے نجاست کے اجزاء کسی طرح الگ کردیے جائیں تو وہ چیز اور پانی دوبارہ پاک ہوجائیں۔
احادیث مبارکہ اور فقہائے کرامؒ کی عبارات میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پانی اور پاک مائع چیزوں میں جب نجاست شامل ہوجائے تو اس سے پانی یا اس مائع چیز کی حقیقت ختم ہوکر وہ چیز بذاتِ خود نجاست نہیں بن جاتی، بلکہ وہ نجاست اس پانی یا مائع چیز کو عارضی طور پر لاحق ہوجاتی ہے، اور وہ پانی "متنجس" ہوجاتا ہے، اب اگر اس پانی یا مائع چیز سے نجاست کا لحوق ختم کرکے اس کے اجزاء اور اثرات ختم کردیئے جائیں تو وہ پانی یا مائع چیز پاک ہوجائے گی۔ چنانچہ ایک مشہور حدیث ہے، جسے "حدیث بیر بُضاعۃ" کہا جاتا ہے، سنن ابی داود میں یہ حدیث یوں مروی ہے: باب في بئر بضاعة: (66) - حدثنا محمد بن العلاء والحسن بن علي ومحمد بن سليمان الأنباري، قالوا: حدثنا أبو أسامة، عن الوليد بن كثير، عن محمد بن كعب، عن عبيد الله بن عبد الله بن رافع بن خديج عن أبي سعيد الخدري: أنه قيل لرسول الله - صلى الله عليه وسلم -: أنتوضأ من بئر بضاعة -وهي بئر يطرح فيها الحيض ولحم الكلاب والنتن-؟ فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "الماء طهور لا ينجسه شيء". (سنن أبي داود: حدیث نمبر: 66)
اس حدیث کے ظاہر سے اگرچہ یہ سمجھ میں آتا ہے کہ پانی سرے سے نجس ہوتا ہی نہیں ہے، لیکن حدیث کے اس ظاہری مفہوم کو حضراتِ فقہاءؒ نے اپنے عموم پر نہیں رکھا، بلکہ اس حدیث کی توجیہ کی گئی ہے، ایک توجیہ امام طحاویؒ نے یوں بیان فرمائی ہے کہ اس حدیث کا معنی یہ نہیں ہے کہ اگر نجاست اس پانی میں موجود ہو تب بھی وہ پانی ناپاک نہیں ہوتا، بلکہ اس کا مطلب یوں ہے کہ اگر اس پانی سے نجاست کو اور اس کے تمام اجزاء اور اثرات کو زائل کردیا جائے اور نجاست کو نکال دیا جائے تو وہ پاک ناپاک نہیں رہتا، عبارت ملاحظہ ہو:
"فلما كان ذلك كذلك، وقد أباح لهم النبي صلى الله عليه وسلم ماءها، وأجمعوا أن ذلك لم يكن وقد داخل الماء التغيير من جهة من الجهات اللاتي ذكرنا ; استحال عندنا، والله أعلم، أن يكون سؤالهم النبي صلى الله عليه وسلم عن مائها وجوابه إياهم في ذلك بما أجابهم ، كان والنجاسة في البئر. ولكنه، والله أعلم، كان بعد أن أخرجت النجاسة من البئر، فسألوا النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك: هل تطهر بإخراج النجاسة منها فلا ينجس ماؤها الذي يطرأ عليها بعد ذلك؟ وذلك موضع مشكل لأن حيطان البئر لم تغسل وطينها لم يخرج، فقال لهم النبي صلى الله عليه وسلم: «إن الماء لا ينجس». يريد بذلك الماء الذي طرأ عليها بعد إخراج النجاسة منها لا أن الماء لا ينجس إذا خالطته النجاسة." «شرح معاني الآثار» (1/ 12، ط: عالم الكتب)
امام طحاویؒ نے اس توجیہ کی دو نظیریں بھی بیان فرمائی ہیں، اور وہ یہ کہ ایک حدیث مبارکہ میں ہے:"المسلم لا ینجس" "مسلمان ناپاک نہیں ہوتا"۔ تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر انسان کے جسم پر ناپاکی لگی ہو تب بھی اس پر ناپاکی کا حکم نہ لگے۔ اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے:«الأرض لا تنجس» "زمین ناپاک نہیں ہوتی"۔ تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر زمین پر نجاست لگ جائے تب بھی وہ ناپاک نہیں ہوتی، کیوں کہ روایات میں زمین کو نجاست سے باقاعدہ پاک کرنے کا حکم دیا گیا ہے، لہٰذا اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر زمین سے نجاست کو زائل کردیا جائے تو وہ ناپاک نہیں رہتی، یعنی زمین کی ناپاکی دائمی نہیں ہوتی، بلکہ اس وقت تک ہوتی ہے جب تک اس پر نجاست کو وجود باقی رہے تو پانی کے سلسلے میں یہی تفصیل ہے کہ اگر اس میں نجاست شامل ہو جائے تو پانی ناپاک ہوجاتا ہے، لیکن اس کی وجہ سے پانی دائمی طور پر نجس نہیں ہوجاتا، بلکہ اگر اس سے نجاست کو زائل کردیا جائے تو وہ پاک ہوسکتا ہے، عبارت ملاحظہ ہو:
"فلم يكن معنى قوله: «المسلم لا ينجس» يريد بذلك أن بدنه لا ينجس وإن أصابته النجاسة ، إنما أراد أنه لا ينجس لمعنى غير ذلك. وكذلك قوله «الأرض لا تنجس» ليس يعني بذلك أنها لا تنجس ، وإن أصابتها النجاسة. وكيف يكون ذلك ، وقد أمر بالمكان الذي بال فيه الأعرابي من المسجد أن يصب عليه ذنوب من ماء؟... قال أبو جعفر: فكان معنى قوله «إن الأرض لا تنجس» أي أنها لا تبقى نجسة إذا زالت النجاسة منها، لا أنه يريد أنها غير نجسة في حال كون النجاسة فيها. فكذلك قوله في بئر بضاعة «إن الماء لا ينجسه شيء» ليس هو على حال كون النجاسة فيها ; إنما هو على حال عدم النجاسة فيها. فهذا وجه قوله صلى الله عليه وسلم في بئر بضاعة «الماء لا ينجسه شيء» ، والله أعلم." («شرح معاني الآثار» (1/ 14، ط: عالم الكتب)

امام طحاویؒ کی اسی توجیہ و تشریح کو حضرت مولانا انور شاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی امام طحاویؒ کے حوالے سے ذکر فرمایا ہے، چنانچہ "العرف الشذی" میں فرماتے ہیں:"وقال الطحاوي ‌بالتصرف ‌والتأول في الخبر «الماء طهور لا ينجسه شيء» كما زعمتم وأغير في التعبير شيئاً مع إبقاء المراد أي الماء طهور لا يبقى نجساً أبداً بحيث لا يكون لطهارته سبيل.." (العرف الشذي:1/ 97)
اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی پانی میں نجاست گِر جائے اور پھر اس سے نجاست کو اس کے تمام اجزاء اور اثرات کے ساتھ دور کردیا جائے تو وہ وہ پانی پاک ہوسکتا ہے۔ چنانچہ حضراتِ فقہاءؒ نے پانی یا مائع میں چیزوں میں نجاست جانے کی صورت میں ان کو دوبارہ پاک کرنے کے طریقے بیان فرمائے ہیں، جن میں سے چند جزئیات بطورِ مثال ملاحظہ ہوں:
1) اگر تيل، دودھ یا شہد ناپاک ہوجائیں تو اس کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس میں تین مرتبہ اصل چیز (تيل، دودھ اور شہد) کی مقدار کے برابر پانی ڈال کر اتنی دیر آگ پر پکایا جائے اور جوش دیا جائے کہ اس کی مقدار کم ہو کر اصل کے برابر رہ جائے تو اس طرح تین مرتبہ کرنے سے وہ تیل، دودھ یا شہد پاک ہوجائے گا۔ علامہ شامیؒ رقم طراز ہیں: «مطلب في ‌تطهير الدهن والعسل (قوله: ويطهر لبن وعسل إلخ) قال في الدرر: لو تنجس ‌العسل فتطهيره أن يصب فيه ماء بقدره فيغلى حتى يعود إلى مكانه، والدهن يصب عليه الماء فيغلى فيعلو الدهن الماء فيرفع بشيء هكذا ثلاث مرات اهـ وهذا عند أبي يوسف خلافا لمحمد، وهو أوسع وعليه الفتوى كما في شرح الشيخ إسماعيل عن جامع الفتاوى» رد المحتار: (1/ 334، ط: دار الفکر)
اگر کسی پاک پانی میں نجاست شامل ہوجائے تو اس کو پاک کرنے کے لیے حضرات فقہاءؒ درج ذیل دو طریقے بیان فرمائے ہیں:
‌أ) اس ناپاک پانی میں پاک پانی ملا کر اسے ماء کثیر بنا دیا جائے، یعنی اس میں اس قدر اضافہ کردیا جائے کہ وہ ایک بڑے حوض (جو پیمائش میں کم از کم دس ہاتھ یعنی پندرہ فٹ چوڑا اور دس ہاتھ لمبا ہو) کے بقدر ہوجائے اور ناپاک پانی کا رنگ بو اور ذائقہ تبدیل ہوکر پاک پانی کی طرح ہوجائے تو پانی پاک ہوجائے گا۔
‌ب) ناپاک پانی میں پاک پانی ملا کر پانی کو جاری کردیا جائے، نیز اس میں نجاست کا کوئی وصف بھی باقی نہ رہے تو بھی پانی پاک ہوجائے گا۔ جیسا کہ المحیط البرهاني میں ہے: «يجب أن يعلم أن ‌الماء ‌الراكد إذا كان ‌كثيراً فهو بمنزلة الماء الجاري لا يتنجس جميعه بوقوع النجاسة في طرف منه إلا أن يتغير لونه أو طعمه أو ريحه. على هذا اتفق العلماء وبه أخذ عامة المشايخ، وإذا كان قليلاً فهو بمنزلة الحباب والأواني يتنجس بوقوع النجاسة فيه وإن لم تتغير إحدى أوصافه ................. الماء النجس يطهر ‌بالاختلاط ‌بالماء ‌الطاهر، ألا ترى أن الماء الراكد في النهر إذا تنجس فنزل من أعلاه ماء طاهر وأجراه وسيّله فلا يطهر، وإنما يطهر باختلاط ‌بالماء ‌الطاهر، وبورود الماء الطاهر عليه فكذا هنا ما بقي من الماء طاهراً وارداً على ما تنجس توسعة الأمر على الناس.» («المحيط البرهاني: 1/ 92 إلى 94)
اوپر ذکر کردہ تفصیل اور جزئیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر پانی یا پاک مائع چیز میں نجاست شامل ہوجائے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ کبھی پاک ہو ہی نہیں سکتا، بلکہ ان کو پاک کرنے کے لیے کوئی مناسب عمل اختیار کرکے ان میں سے اجزاء نجاست کو اس طرح ختم کردیا جائے کہ اس سے ظاہری نجاست کے اثرات بھی ختم ہوجائیں تو وہ پانی اور مائع اشیاء پاک شمار ہوں گی۔
لہٰذا موجود دور میں چونکہ فیکٹریوں یا بعض بڑے اداروں میں پانی کو صاف اور پاک کرکے دوبارہ استعمال کرنے کی کافی حاجت درپیش رہتی ہے، اس لیے ایسی صورت میں اگر کیمیکل وغیرہ کے ذریعے یا کسی اور طریقہ سے نجاست کے اجزاء کو اچھی طرح ختم کردیا جائے کہ نجاست کی وجہ سے پانی میں جو تغیر آگیا تھا وہ زائل ہوجائے، نیز پانی کا رنگ، بو اور ذائقہ پاک پانی کی طرح ہوجائے تو اس پانی کو پاک قرار دینے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے، لہٰذا ایسے پانی سے پاکی حاصل کرنا اور دوسرے مقاصد مثلاً فیکٹری وغیرہ کے لیے استعمال کرنا جائز ہوگا، البتہ اگر اس پانی کو پینے سے کسی نقصان کا اندیشہ ہو تو پینے سے پرہیز کیا جائے۔
تاہم یہ واضح رہے کہ ریسائیکل مشین کے ذریعے صاف کیے گئے پانی پر ماءِ مطلق کی طرح ہونے کا حکم چونکہ قواعد اور فقہی نظائر کی روشنی میں دیا گیا ہے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ مشینی یا کیمیکل کے ذریعے ریسائیکل کے عمل سے گزارنے کے بعد بھی حضرات فقہاءؒ کے بیان کردہ مذکورہ بالا دو طریقوں (یعنی مزید پاک شامل کرکے اس پانی کو کثیر یا جاری بنادیا جائے) میں سے کوئی ایک طریقہ بھی اختیار کرلیا جائے تاکہ پانی کی پانی میں کوئی شبہ باقی نہ رہے۔
(مستفاد از: تبویب جامعہ دار العلوم کراچی: 26/1615 و 10/2448، بتلخیص)
جہاں تک گھریلو پانی کا تعلق ہے تو ہمارے ہاں چونکہ عام طور پر گھروں میں ناپاک پانی کو پاک کرکے استعمال کرنے کی اتنی زیادہ حاجت درپیش نہیں ہوتی، اس لیے اگر دوسرا صاف پانی آسانی سے میسر ہو تو ناپاک پانی کو باغیچہ وغیرہ میں بہادینا چاہیے، اور اگر حاجت ہو تو اوپر ذکر کردہ تفصیل کے مطابق بھی عمل کیا جاسکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

المحيط البرهاني: (94/1، ط: دار الكتب العلمية)
«الماء النجس يطهر بالاختلاط بالماء الطاهر، ألا ترى أن الماء ‌الراكد في النهر إذا تنجس فنزل من أعلاه ماء طاهر وأجراه وسيّله فلا يطهر، وإنما يطهر ‌باختلاط بالماء الطاهر، وبورود الماء الطاهر عليه فكذا هنا ما بقي من الماء طاهراً وارداً على ما تنجس توسعة الأمر على الناس»

و فی‫ه أيضا: (90/1)
«ويجوز التوضؤ بالماء الجاري، ولا يحكم بتنجسه لوقوع النجاسة فيه ما لم يتغير طعمه أو لونه أو ريحه، وبعدما تغير أحد هذه الأوصاف وحكم بنجاسته لا يحكم بطهارته ما لم يزل ذلك التغير بأن يزاد عليه ماء طاهر حتى نزيل ذلك التغير، وهذا لأن ‌إزالة ‌عين ‌النجاسة عن الماء غير ممكن فيقام زوال ذلك التغير الذي حكم بالنجاسة لأجله مقام زوال ‌عين ‌النجاسة»

العرف الشذي شرح سنن الترمذي: (97/1، ط: دار التراث العربي)
وقال الطحاوي ‌بالتصرف ‌والتأول في الخبر «الماء طهور لا ينجسه شيء» كما زعمتم وأغير في التعبير شيئاً مع إبقاء المراد أي الماء طهور لا يبقى نجساً أبداً بحيث لا يكون لطهارته سبيل، فإن هذا التعبير أقرب إلى لفظ الحديث عربية، وادعى الطحاوي أن الأنجاس كانت تخرج، وقال: إن بير بضاعة كانت جارية وأن الآبار كانت جارية، ولم يدرك مراد جريانه بعضهم، فإن مراده بالجريان إخراج الماء لا أن الماء يخرج بنفس.

رد المحتار: (187/1، ط: دار الفکر)
«وفي الخزانة إناءان ‌ماء أحدهما ‌طاهر والآخر ‌نجس ‌فصبا من مكان عال فاختلطا في الهواء ثم نزلا طهر كله، ولو أجرى ‌ماء الإناءين في الأرض صار بمنزلة ‌ماء جار اه ونحوه في الخلاصة»

و فیه أيضا: (334/1)
«مطلب في ‌تطهير الدهن والعسل (قوله: ويطهر لبن وعسل إلخ) قال في الدرر: لو تنجس ‌العسل فتطهيره أن يصب فيه ماء بقدره فيغلى حتى يعود إلى مكانه، والدهن يصب عليه الماء فيغلى فيعلو الدهن الماء فيرفع بشيء هكذا ثلاث مرات اه وهذا عند أبي يوسف خلافا لمحمد، وهو أوسع وعليه الفتوى كما في شرح الشيخ إسماعيل عن جامع الفتاوى. وقال في الفتاوى الخيرية: ظاهر كلام الخلاصة عدم اشتراط التثليث، وهو مبني على أن غلبة الظن مجزئة عن التثليث وفيه اختلاف تصحيح، ثم قال: إن لفظة: فيغلى ذكرت في بعض الكتب. والظاهر أنها من زيادة الناسخ، فإنا لم نر من شرط لتطهير الدهن الغليان مع كثرة النقل في المسألة والتتبع لها إلا أن يراد به التحريك مجازا، فقد صرح في مجمع الرواية وشرح القدوري أنه يصب عليه مثله ماء ويحرك فتأمل. اه. أو يحمل على ما إذا جمد الدهن بعد تنجسه. ثم رأيت الشارح صرح بذلك في الخزائن فقال: والدهن السائل يلقى فيه الماء، والجامد يغلى به حتى يعلو إلخ. ثم اشتراط كون الماء مثل ‌العسل أو الدهن موافق لما في شرح المجمع عن الكافي، ولم يذكره في الفتح والبحر. وذكر القهستاني عن بعض المفتين الاكتفاء في ‌العسل والدبس بالخمس قال: لأن في بعض الروايات قدرا من الماء.
قلت: يحتمل أن قدرا مصحف عن قدره بالضمير فيوافق ما ذكرناه عن شرح المجمع، وبه يسقط ما نقله عن بعض المفتين.
هذا وفي القنية عن ركن الأئمة الصباغي أنه جرب ‌تطهير ‌العسل بذلك فوجده مرا. وذكر في الخلاصة أنه لو ماتت الفأرة في دن النشاء يطهر بالغسل إن تناهى أمره وإلا فلا»

الفقه الإسلامي وأدلته: (279/1، دار الفكر، سورية)
والمتنجس عند أكثر الفقهاء لا ينتفع به ولا يستعمل في طهار ة ولا في غيرها إلا في نحو سقي بهيمة أو زرع، أو في حالة الضرورة كعطش.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

napak pani ko pak karne ka tarika tariqa

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Purity & Impurity