عنوان: مرحوم والدین کی چاہت کے مطابق ورثاء کے درمیان جائیداد تقسیم کرنا (22592-No)

سوال: ایک میاں بیوی نے اپنا گھر اپنی زندگی میں اپنے ایک بیٹے اور بیٹی کے درمیان تقسیم کیا تھا، بیٹے کا نکاح 1999میں ہوا اور اسی وقت سے بیٹا اوپر رہائش اختیار کیے ہوئے ہے، بیٹی کا نکاح ہونے کے ایک سال بعد گھر سے تقریباً 180 کلومٹر دوری پر رہتی ہے، ان کا سال میں دو تین بار آنا جانا رہتا ہے (موقع کے اعتبار سے 10/20/30 رہا کرتی تھی) 10/12 سال بعد بیٹے کی بیوی نے اوپری حصے میں گھر کی تعمیر کروائی اور ذیلی حصہ کے برابر کر دیا۔ میاں بیوی (والدین ) نے ایک کاغذ لکھا کہ اوپر کا پورا گھر بیٹے کا اور نیچے کا پورا گھر بیٹی کا اور اس پر دستخط کرنے کے بعد وہ کاغذ بطور امانت اپنے بھانجے کو دیا اور اس سے کہہ دیا کہ جب تک ہم دونوں کا انتقال نہ ہو جائے، یہ کاغذ کسی کو دکھانا نہیں ہے۔ (یہ بات زبانی طور پر بھانجے سے پتہ چلی جب تقسیم کی بات چھیڑی گئی) میاں بیوی (والدین) میں سے بیوی کا انتقال 2021 میں ہوا اور میاں کا 2024 میں ہوا، بھانجے کے کہنے کے مطابق کاغذ گم ہو گیا ہے تو شرعی اعتبار سے تقسیم کس طرح ہوگی؟

جواب: واضح رہے کہ اگر والدین کے صرف یہ دو (بیٹا اور بیٹی) ہی وارث ہوں تو اس مکان کے دو تہائی (2/3) میں بیٹے اور ایک تہائی (1/3) میں بیٹی کا حق ہوگا، البتہ اگر وہ والدین کی چاہت کے مطابق دلی رضامندی سے تقسیم کرنا چاہیں تو اس کی بھی گنجائش ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11)
يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين

عمدۃ القاری: (باب لا وصیة للوارث، 55/14، ط: دار الکتب العلمیة)
"وقال المنذري: إنما یبطل الوصیة للوارث في قول أکثر أہل العلم من أجل حقوق سائر الورثة، فإذا أجازوہا جازت، کما إذا أجازوا الزیادۃ علی الثلث".

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 25 Dec 30, 2024

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2025.