سوال:
مفتی صاحب! ایک سوال ہے کہ زید نے حامد کے لیے ایک گاڑی مبلغ دو لاکھ روپے پر خریدی اور دونوں کے درمیان یہ بات طے هوئی ہے کہ زید حامد سے دو لاکھ روپے بمع تیس فیصد اضافہ یعنی کل دو لاکھ ساٹھ ہزار روپے قسطوں پر ایک سال میں وصول کرےگا تو آیا زید کا یہ منافع لینا درست ہے یا سود کے زمرے میں آتا ہے؟ زید نے پہلے اپنے لیے نہیں خریدی بلکہ پہلے دونوں کا معاہده ہوا کہ حامد اپنے لیے گاڑی پسند کریگا، زید اس گاڑی کی جو بھی قیمت ہوئی یکمشت دکاندار کو ادا کرےگا اور حامد زید کی رقم (جو گاڑی کے عوض دکاندار کو دی) کو 30 فیصد منافع کے ساتھ زید کو ایک سال میں اقساط کی صورت میں واپس کریگا۔ کیا یہ صورت جائز ہے؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر زید حامد کی پسند کی ہوئی گاڑی باقاعدہ خرید کر اسے اپنے قبضہ میں لینے کے بعد حامد کو باہمی رضامندی سے طے شدہ رقم کے عوض مقررہ مدت کیلئے منافع کے ساتھ قسطوں پر فروخت کردے تو یہ معاملہ شرعاً درست ہے، بشرطیکہ اس میں کوئی اور غیر شرعی امر (مثلاً: قسط کی تاخیر کی صورت میں جرمانہ وغیرہ) نہ پایا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
شرح المجلة: (المادۃ: 245- 246)
البیع مع تأجیل الثمن وتقسیطه صحیح … یلزم أن تکون المدۃ معلومة في البیع بالتأجیل والتقسیط الخ
بحوث فی قضایا فقہیة معاصرة: (12/1، ط: دار العلوم كراتشي)
أما الأئمة الأربعة وجمہور الفقہاء والمحدثین فقد أجازوا البیع الموٴجل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبتّ العاقدان بأنه بیع موٴجل بأجل معلوم بثمن متفق علیه عند العقد
بدائع الصنائع: (کتاب البیوع، 394/4، ط: زکریا)
"ومنہا: القبض في بیع المشتري المنقول، فلا یصح بیعه قبل القبض لما روي أن النبي علی السلام نہیٰ عن بیع ما لم یقبض.
الهندية: (کتاب البیوع، الباب الرابع عشر في المرابحة)
المرابحۃ بیع بمثل الثمن الأول وزیادۃ ربح -إلی قولہ- والکل جائز
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی